کسی جواب کی مہلت نہیں ملی مجھ کو
کسی جواب کی مہلت نہیں ملی مجھ کو
برا نہ مان سہولت نہیں ملی مجھ کو
اسی سکون نے عادت بگاڑ دی میری
بہت دنوں سے اذیت نہیں ملی مجھ کو
کسی سے اپنے تعلق کو غور سے دیکھا
کسی طرح کی حماقت نہیں ملی مجھ کو
میں اس مزاج کے دریا سے خوب واقف تھی
تبھی تو پیاس کی شدت نہیں ملی مجھ کو
گزشتہ رات کوئی خواب مر گیا میرا
میں ڈھونڈھتی رہی میت نہیں ملی مجھ کو
جو اب ملی ہے ہمیشہ رہے گی ساتھ مرے
وہ عارضی تھی جو وحشت نہیں ملی مجھ کو