کس طرح کھلتے ہیں نغموں کے چمن سمجھا تھا میں

کس طرح کھلتے ہیں نغموں کے چمن سمجھا تھا میں
ساز ہستی پر تجھے جب زخمہ زن سمجھا تھا میں


کیا خبر تھی ہم نوا ہو جائیں گے صیاد کے
باغ کا اپنے جنہیں سرو و سمن سمجھا تھا میں


قیدیٔ بے خانماں زنداں سے چھوٹے بھی اگر
اور کچھ بڑھ جائیں گے رنج و محن سمجھا تھا میں


تابع گردش ہیں کس کے انقلابات جہاں
کیا کہے گی تیری چشم پر فتن سمجھا تھا میں


اس طرح دل چاک ہوتا ہے نہ یوں ٹکڑے جگر
لالہ و گل ہیں ترے خون کفن سمجھا تھا میں


تو ملا جس کو اسے کیا جان و تن سے واسطہ
تفرقہ تھا جس کو ربط جان و تن سمجھا تھا میں


حق و باطل کا اثرؔ مٹنے لگا جب امتیاز
تازہ ہوگا قصۂ دار و رسن سمجھا تھا میں