کس سے اب جا کے کہیں حال پریشاں اپنا

کس سے اب جا کے کہیں حال پریشاں اپنا
لیے پھرتے ہیں سبھی چاک گریباں اپنا


جز ترے نام کے ابھری نہ کوئی اور صدا
ہم نے چھیڑا جو کبھی تار رگ جاں اپنا


پھر اسے مجھ سا کوئی چاہنے والا نہ ملا
وہ پشیماں ہے بہت توڑ کے پیماں اپنا


میرے ہونٹوں کے تبسم سے ہراساں ہو کر
رخ بدل لیتا ہے سیل غم دوراں اپنا


باغباں سے کبھی خیرات نہ مانگی ہم نے
موسم گل میں بھی خالی رہا داماں اپنا


کم سے کم جھوٹی تسلی سے تو محفوظ ہیں ہم
یہ بھی اچھا ہے کہ کوئی نہیں پرساں اپنا


اپنے قدموں پہ فرشتوں کو جھکا سکتا ہے
مرتبہ جان لے عابدؔ اگر انساں اپنا