کس پہ قابو جو تجھی پہ نہیں قابو اپنا

کس پہ قابو جو تجھی پہ نہیں قابو اپنا
کس سے امید ہمیں جب نہ ہوا تو اپنا


جام مے دیکھ کے جاتا رہا قابو اپنا
لڑکھڑاتا ہوں پکڑ لے کوئی بازو اپنا


نکہت گل بہت اتراتی ہوئی پھرتی ہے
وہ کہیں کھول بھی دیں طرۂ گیسو اپنا


اس نے پھر کر بھی نہ دیکھا کہ یہ ہے کون بلا
ہم کو تھا زعم کہ چل جائے گا جادو اپنا


جس کو سمجھے ہو وہی چیز نہیں مدت سے
ہم دکھا دیں گے کبھی چیر کے پہلو اپنا


پر پرواز نکلنے دے قفس میں صیاد
کام دے گا یہی ٹوٹا ہوا بازو اپنا


مل گئے خاک میں در پر ترے اتنا بیٹھے
اس ریاضت پہ بھی اب تک نہ ہوا تو اپنا


غم نہیں جام طلاکار اٹھا رکھ ساقی
کیا غرض ہم کو سلامت رہے چلو اپنا


چوکڑی بھول کے منہ تکتے ہیں مجھ وحشی کے
آکے اس پاؤں پہ سر رکھتے ہیں آہو اپنا


کون اے طول شب غم ترا جھگڑا رکھے
آج قصہ ہی کیے دیتے ہیں یکسو اپنا


نکہت خلد بریں پھیل گئی کوسوں تک
وہ نہا کر جو سکھانے لگے گیسو اپنا


للہ الحمد کدورت نہیں رہنے پاتی
منہ دھلا دیتا ہے ہر صبح کو آنسو اپنا


شادی و غم کے رہیں گے یہی رگڑے جھگڑے
قصہ جس وقت تلک ہوگا نہ یکسو اپنا


غم میں پروانۂ مرحوم کے تھمتے نہیں اشک
شمع اے شمع ذرا دیکھ تو منہ تو اپنا


بے ادب مصحف رخسار پہ جھک پڑتے ہیں
رکھئے شانوں پہ ذرا گھیر کے گیسو اپنا


سینۂ تنگ سے گھبرا کے گیا دل تو گیا
منہ دکھائے نہ مجھے اب یہ سیہ رو اپنا


پھنسنے والا تھا پھنسا آ کے تری زلفوں میں دل
بہ خدا اس میں نہیں جرم سر مو اپنا


شام سے جیب میں اک تلخ دوا رکھی ہے
آج قصہ ہی کیے دیتے ہیں یکسو اپنا


وہم و ادراک و خیالات و دل و خواہش دل
سب تو اپنے ہیں مگر کیوں نہیں قابو اپنا


شادؔ سمجھاتے ہیں کیوں غیر لیا کیا ان کا
چشم تر اپنی ہے جان اپنی ہے آنسو اپنا