کس نے ان کا شباب دیکھا ہے
کس نے ان کا شباب دیکھا ہے
جس نے دیکھا ہے خواب دیکھا ہے
آسماں پر ابھی تو دنیا نے
ایک ہی آفتاب دیکھا ہے
دیکھنے کو تو حسن ہم نے بھی
اک سے اک انتخاب دیکھا ہے
چند ذی قلب تھے جنہیں ہم نے
صرف صد اضطراب دیکھا ہے
سننے والے بھی جس کو سن نہ سکیں
ہم نے وہ انقلاب دیکھا ہے
جب سے بدلی ہے وہ نگاہ کرم
ہر نظر میں عتاب دیکھا ہے
ایک دنیا کو ہم نے اپنے خلاف
برسر احتساب دیکھا ہے
پھر جواب الجواب دے نہ سکا
جس نے ان کا جواب دیکھا ہے
اس طرف ان کا التفات تو کیا
ہاں مگر اجتناب دیکھا ہے
ہم نے دل دادگان الفت کا
حال اکثر خراب دیکھا ہے
ہم نے اپنا تو جذب دل حیرتؔ
شاذ ہی کامیاب دیکھا ہے