کس ہتھیلی پہ پاپوش سینچے گئے کس کہانی کو بے نام رکھا گیا

کس ہتھیلی پہ پاپوش سینچے گئے کس کہانی کو بے نام رکھا گیا
زانوئے دل پہ کل شب بڑی بھیڑ تھی جس کے برتے پہ انجام رکھا گیا


ہم شروع محبت سے نادار تھے اپنی آنکھوں سے ہونٹوں سے بیزار تھے
ہم سے کیا پوچھتے ہو لہو کی کھنک جس کے ریشوں میں ابہام رکھا گیا


انتہاؤں میں تجھ سے الگ ہو گئے ابتداؤں سے ہی سہل انداز تھے
عمر کے ریگ زاروں سے گزرے نہیں اور شانوں پہ الزام رکھا گیا


رونقوں میں تماشا بنے رات دن خلوتی تھے صدا خلوتی ہی رہے
مشک کی ناند کولھے پہ دیکھی گئی اور پہلو میں الہام رکھا گیا


ایسی بے وقعتی سے تراشا گیا اپنے ہونے پہ نادم رہے عمر بھر
خشک مٹی کے ڈھیلوں کو یکجا کیا آندھیوں کے تلے نام رکھا گیا


رس بھری کہنیوں کو نچوڑا گیا شہر کے چوک میں لا کے چھوڑا گیا
جسم کے ڈھیلے تاروں کو کستے رہے اور بھیتر میں کہرام رکھا گیا


گولیوں سے ادھڑتے رہے نام بھی بام و در کی حکایت ادھوری رہی
بام و در کی حکایت کہ جس کے عوض بخت میں دانہ و دام رکھا گیا


جام میں تند پانی بھرا دیکھیے اب چراغوں کی لو کو مرا دیکھیے
سرخ قالین اور اس پہ بچھتی غزل جس کے زانو پہ احرام رکھا گیا