کردار ہے اور اپنی کہانی سے جڑا ہے
کردار ہے اور اپنی کہانی سے جڑا ہے
انسان تو بس عالم فانی سے جڑا ہے
میں کیسے کہوں پیاس سے مرتے نہیں پنچھی
یہ سانس کا رشتہ بھی تو پانی سے جڑا ہے
دل اب بھی تری آرزو کرتا ہے مسلسل
دل اب بھی مرا یاد کے پانی سے جڑا ہے
ہر شخص ہی دنیا سے چلا جائے گا اک دن
ہر شخص ہی جب نقل مکانی سے جڑا ہے
اس غم کو بھی اب دل میں جگہ دینی پڑے گی
یہ غم بھی مرے ساتھ جوانی سے جڑا ہے
یہ درد مری جان کا دشمن بنا زیبیؔ
اس درد کا رشتہ بھی روانی سے جڑا ہے