کینیا میں دینیات

1963ء میں مسلمانوں نے کینیا سے آزادی حاصل کرکے اپنے آپ کو مسلمان ملک صومالیہ سے جوڑنے کے لیے جدوجہد کی تو اس خانہ جنگی میں بے شمار مسلمان مرد مارے گئے۔ آبادیوں کی آبادیاں یتیموں اور بیواؤں کی وجہ سے کسمپرسی کا شکار ہوگئیں۔ اب عیسائی مشنریوں کو موقع ملا کہ وہ ہسپتالوں، اسکولوں، یتیم خانوں اور دیگر تعمیرات کے نام پر ان بستیوں میں گھس جائیں۔ ان کے بے شمار پادری اور مشنری طبقے کے مبلغ  اس کام میں لگ گئے، جنھوں نے مسلمانوں کو گمراہ کیا اور بڑی تعداد میں لوگوں نے عیسائیت قبول کر لی۔ ایک قصبہ جہاں عیسائیوں نے فکری  یلغار کی، وہاں ہمارا بھی مرکز تھا۔ اس قصبے کا نام قربت اللہ ہے اور یہاں عیسائی مشنریوں نے طالبات  کا ایک پرائمری اور ہائر سیکنڈری اسکول اور انھیں آفس سیکرٹری، سٹینو اور ٹائپسٹ کی تعلیم دینے کے لیے ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ کا ادارہ قائم کیا۔ کئی برس تک بچیوں کو تعلیم دینے کے بعد وہ سمجھے کہ یہ  اب مکمل طور پر انھی کے رنگ میں رنگ چکی ہیں اور ان کا اپنے دین اورخاندانی پس منظر سے رابطہ ٹوٹ چکا ہے۔ اس لیے ان کے نام تک تبدیل کر دیے گئے، مگر ایک عجیب واقعہ رونما ہوا جس سے تہلکہ مچ گیا۔ جب ان طالبات  کی پاسنگ آؤٹ تقریب آئی تو وہ اتوار کے دن اپنے معمول کے خلاف گرجا گھر میں حاضر نہ ہوئیں، بلکہ اپنے ہاسٹل میں بستروں ہی میں دبکی رہیں۔ مشنری عملے نے یہ منظر دیکھ کر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور کہا کہ فادر گرجا  گھر  میں سرمن دے رہے ہیں اور تم ابھی تک تیار ہی نہیں ہوئیں۔ ایک طالبہ نے ہمت کرکے کہا: "ہم تو مسلمان ہیں اور مسلمان گرجا گھروں میں نہیں مسجدوں میں جایا کرتے ہیں۔"

لڑکی کی اس ایمانی جرات سے ایک طوفان تو آنا ہی تھا،

اس ماحول اور ادارے میں ایک بے بس لڑکی کی یہ بات ایک دھماکے سے کم نہ تھی۔  اس پر چرچ میں تحقیق شروع ہوگئی کہ: "اتنا عرصہ مشنریوں کے زیر اثر رہنے کے باوجود ان بچیوں کو کیاہوگیا تھا کہ انھوں نے اپنے آپ کو عیسائی کے بجائے مسلمان قرار دے دیا؟"

تحقیق پر پتا چلا کہ مولانا مودودیؒ کی کتاب ، دینیات کا سواحلی زبان میں  ترجمہ اس انقلاب کا محرک بنا۔ کتاب کے مترجم ، ممباسا کے مشہور مسلمان سکالر جناب چراغ دین شہاب دین مرحوم تھے۔ اسلامک فاؤنڈیشن کی طرف سے اس کا ترجمہ چند ہی سال قبل سواحلی زبان میں ہوا تھا۔ دراصل اس ادارے میں ایک بیٹی  کے پاس کسی ذریعے سے یہ کتاب پہنچی تو اس نے اس کا مطالعہ کیا۔ وہ کتاب سے بہت متاثر ہوئی اور آہستہ آہستہ سب لڑکیوں نے یہ کتاب پڑھ لی اور آپس میں طے کیا: "ہم مسلمان ہیں اور ہمیں مسلمان ہی رہنا چاہیے۔"

 پہلی لڑکی کا نام جس نے یہ کتاب پڑھی فاطمہ تھا م،گر اسے مارگریٹ بنا دیا گیا تھا۔ پھر حلیمہ (نینسی)، خدیجہ (این)، عائشہ (جیری) اور مریم (میری)   و  دیگر بیٹیاں  یہ کتاب پڑھتی چلی گئیں اور اپنی اپنی شناخت پاکر صلیبی چنگل سے نکل آئیں۔ الحمد للّٰہ  علیٰ ذلک

  مولانا آج ہمارے ساتھ نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے قلم و افکار سے ہمارے ساتھ ہیں ۔