برطانیہ کے نئے بادشاہ، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کس طرح کے خیالات رکھتے ہیں؟
برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کی وفات کے ساتھ ہی ان کے سب سے بڑے بیٹے چارلس برطانیہ سمیت چودہ دیگر ممالک کے بادشاہ بن گئے ہیں۔
اس وقت عالمی میڈیا میں شور ہے کہ تہتر سالہ نئے بادشاہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں خاصا نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
گو کہ برطانوی آئین کے مطابق بادشاہ کا عہدہ برائے نام ہی ہوتا ہے اور پورے شاہی خاندان کے پاس کوئی خاص سیاسی و انتظامی اختیارات نہیں ہوتے، تاہم چارلس جب شہزادے تھے تو انہیں مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک سے تعلقات میں خاصا متحرک دیکھا گیا تھا۔ الجزیرہ پر شائع چارلس کے بارے میں آرٹیکل کے مطابق عرب بہار کے بعد اس وقت کے شہزادہ چارلس نے آٹھ ممالک کے ساتھ پچانوے ملاقاتیں کیں۔ شہزادے کو برطانوی اسلحہ ساز کمپنیاں مشرق وسطیٰ میں ہتھیار فروخت کرنے کے لیے بھی خاصا استعمال کرتی رہی ہیں۔ گزشتہ دہائی میں چارلس کے ہاتھوں تقریباً سولہ ارب ڈالر کا اسلحہ و ہتھیار بکوایا گیا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ چارلس مبینہ طور پر برطانوی کمپنیوں کا اسلحہ بیچنا نہیں چاہتے تھے۔ رابرٹ جوبسن کی لکھی چارلس کی سوانح کے مطابق چارلس نے مبینہ طور پر برطانوی وزرا کو کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے برطانوی کمپنیوں کا اسلحہ نہیں بیچنا چاہتے
فلسطینیوں کی حمایت::
2020 میں چارلس نے فلسطین کا دورہ کیا تو وہاں انہوں نے اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ ان کی شدید خواہش ہے کہ مستقبل فلسطینیوں کے لیے آزادی، برابری اور انصاف لے کر آئے۔ چارلس کی سوانح لکھنے والے مصنف جابسن نے لکھا کہ چارلس اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کو تمام اسلامی دنیا میں لگی آگ کی بنیادی وجہ سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ فلسطینیوں کی اس قسم کی حمایت بھلے زبانی ہی، برطانیہ کی خارجہ پالیسی کے خلاف ہے۔ چارلس نے 2003 میں امریکہ کے عراق پر حملے کی بھی سخت مخالفت کی۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنے وزیر اعظم ٹونی بلیر کو بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ انہوں نے امریکہ کا ساتھ دیا۔
بادشاہ چارلس کے اسلام کے بارے میں تاثرات:
چارلس کے سوانح نگار جابسن نے لکھا کہ چارلس نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا ہوا ہے اور وہ عرب کی اسلامی حکومتوں کو لکھے گئے خطوط پر عربی میں دستخط کرتے ہیں۔ چارلس نے 2006 میں قاہرہ میں موجود جامع الازہر کا دورہ کیا تو 2005 میں حضور نبی اکرم ﷺ پر بننے والے خاکوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اسی طرح چارلس مغرب اور اسلام کو قریب لانے کے بھی بہت بڑے حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مغرب میں اسلام کے بارے میں بہت سے غلط تصورات پائے جاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہ صرف ہمارے یعنی مغربی اقوام کے اندر اسلام کے بارے میں غلط تصورات پائے جاتے ہیں بلکہ ہم ناواقف ہیں کہ ہماری تہذیب اور ثقافت کس قدر اسلام کی مقروض ہے۔ مزید برآں چارلس کا یہ بھی کہنا ہے کہ انتہا پسندی کو ہمیں مکمل اسلام نہیں سمجھنا چاہیے۔
ان باتوں کے علاوہ بھی شاہ چارلس کے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہت سے بیانات موجود ہیں۔ گو کہ شاہ چارلس کوئی خاص سیاسی اثررسوخ نہیں رکھتے، تاہم ایسی بڑی شخصیات کے مثبت رویے سے ہی انسانیت کے لیے بہتری کے امکانات موجود ہیں۔