پاکستان کی پسماندگی کی تین بڑی وجوہات کون سی ہیں؟
ہم اکثر اپنے پیارے وطن پاکستان کو ایک لقب دیا کرتے ہیں۔ "ملک خداداد"۔ یہ لقب ہم اس لیے دیتے ہیں کہ ہم اپنے وطن کو خدا کا تحفہ سمجھتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں نظر دوڑائیں تو اس کا یقین بھی ہونے لگتا ہے۔ پاکستان بہترین جغرافیائی پوزیشن پر واقع ہے۔ کسی نے جنوبی ایشیا سے وسطی و مغربی ایشیا جانا ہو تو گزرگاہ پاکستان ہے۔ ہمسائے میں ابھرتی سوپر پاور چین ہے، مشرق میں ڈیڑھ ارب لوگوں کی معیشت ہے اور جنوب میں ساحل سمندر، جہاں گوادر جیسی قدرتی بندرگاہ ہے۔ زرعی ملک ہے یہ، پہاڑ اس کے معدنیات اگلتے ہیں، سر سبز وشاداب وادیاں یہاں آنکھیں خیرہ کرتی ہیں اور برف پوش چٹانیں اس کے حسن کو چار چاند لگاتے ہیں۔ انسانی زندگی کے لیے بہترین موسم یہاں ہیں اور دریائے سندھ جیساعظیم دریا اس کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔
ہم سب ان تمام نعمتوں کو جانتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم غریب ہیں۔ دنیا میں بے وقعتی سی محسوس ہوتی ہے۔ آج کی تاریخ میں جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں، ایف اے ٹی ایف کا اجلاس جاری ہے۔ وہی سبکی ہے اور وہی عالمی طاقتوں کی دھونس۔ یہاں سے خوار ہو کے نکلیں گے تو ہاتھ پھیلا کر آئی ایم ایف کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا۔ آخر ان سب چیزوں کی وجوہات تو ہیں ناں جن کی بنا پر آج یہ سب ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ ہم دنیا کی طاقتوں کے مفادات اپنے ساتھ جوڑ نہیں پا رہے اور بدلے میں ہماری آواز ان کے لیے غیر اہم سی ہو گئی ہے۔ وہ کیا وجوہات ہیں، ان میں سے تین سب سے بڑی جو میرے خیال میں ہیں ، میں نے قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔
سیاسی عدم استحکام:
آپ نے ایک فقرا بہت بار سنا ہوگا۔ "پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے"۔ یہ فقرا اس لیے بولا جاتا ہے کہ پاکستان اکثر ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار رہتا ہے۔ یہ عدم استحکام پاکستان کی بہت بڑی کمزوری ہے بلکہ اگر اسے سب سے بڑی کمزوری کہا جاۓ تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس کی وجہ سے معیشت پنپ نہیں پاتی، امن و امان کے مسائل ہوتے ہیں، حکومتیں کمزور ہوتی ہیں، بیرونی سازشیں کامیاب ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ملک میں انتشار پھیلتا ہے۔
میں کوئی زیادہ سیاسی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن اس وقت کے سیاسی حالات آپ کے سامنے ہی ہیں۔ کوئی سندھ سے مارچ لے کر کہیں جا رہا ہے اور کوئی سیاسی مارچ لے کر سندھ میں آ رہا ہے۔ وزیر اعظم کو نہیں پتا کہ کل اس کی حکومت ہو گی یا نہیں۔ اپوزیشن ملکی مسائل اجاگر کرنے کے بجائے اپنا ہی راگ الاپ رہی ہے۔ عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں کراہ رہے ہیں۔ یہ سب باتیں سیاسی عدم استحکام کی کھلی دلیل ہیں۔ یہ کہانی آج کی نہیں ہے، پچھلی سات آٹھ دہائیوں سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ دو ہی وجوہات ہیں اس سیاسی عدم استحکام کی جنھوں نے ہمیں جکڑ رکھا ہے۔ اداروں کا اپنی مقرر کردہ آئینی حدود میں نہ رہنا اورقانون کی بالا دستی نہ ہونا۔
یہ سیاسی عدم استحکام اتنی بڑی وجہ ہے کہ صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک بھی جہاں یہ موجود ہے، وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود آج بدترین حالات میں ہی ہیں۔ آپ وینزویلا کو دیکھ لیں، شام و عراق کو دیکھ لیں، کانگو اور مالی کو دیکھ لیں۔ ہر ملک وسائل سے مالامال ہے لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بری طرح پس رہا ہے۔ دوسری طرف جاپان کو دیکھیں۔ بیشتر زمین اس کی بنجر ہے، چاروں اطراف سے سمندر میں یہ گھرا ہے، زلزلے یہاں آتے ہیں اور تو اور معدنیات وغیرہ یہاں پائی نہیں جاتیں۔ اس کے باوجود یہ کس قدر پر امن اور ترقی یافتہ ہے، یہ مجھے آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ وجہ اس کی کیا ہے؟ یہ کہ سیاسی استحکام ہے یہاں۔ پاکستان کی چوہتر سالہ تاریخ میں ایک بہت بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں کبھی بیوروکریسی اور کبھی عسکری ادارے مداخلت کرتے رہے ہیں۔ یہ تاثر بالکل عام ہے کہ پاکستان کے فیصلے پاکستان کی سیاسی قیادت نہیں بلکہ عسکری قیادت کرتی ہے۔ اگر ان کا فیصلہ نہ مانا جاۓ تو وہ پورا سیاسی نظام تلپٹ کر دیتے ہیں۔ عسکری قیادت کی اس مداخلت کی وجہ سے ان کے اور سیاسی قیادت کے درمیان ایک طرح کی رسہ کشی ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے سارا ملک عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے۔ اسی رسہ کشی کی وجہ سے حکومتیں پاکستان کے اصل مسائل کی طرف توجہ نہیں دے پاتیں اور عوام پستی رہتی ہے۔
بے ہنر اور پسماندہ افرادی قوت:
پاکستان کی افرادی قوت میں مہارتوں کی کمی ایک ایسی کمزوری ہے جس نے پاکستان کو جکڑ رکھا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو تعلیمی اداروں کا غیر معیاری ہونا ہے اور دوسرا حکومتوں کی عدم توجہی۔ ورلڈ اکانومک فورم کی 2017 کی افرادی قوت کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق پاکستان ان 38 فیصد ممالک میں شامل ہے جہاں قحط رجال موجود ہے۔ اسی رپورٹ میں جب پاکستان کی افرادی قوت کے معیار کی رینکنگ کی گئی تو وہ 130 ممالک میں آخری دس میں تھی۔ اسی غیر معیاری افرادی قوت کی وجہ سے پاکستان اپنی صنعت کو بھی دوسرے ممالک کے مد مقابل نہیں لا پاتا۔ آج جب دنیا تیزی سے نالج اکانومی کی طرف بڑھ رہی ہے تو بہت ضرورت ہے کہ پاکستان اپنی افرادی قوت کو اس کے حوالے سے تربیت دے۔ تاکہ پاکستان کی عوام کی معاشی حالت سدھاری جا سکے۔ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات لائی جائیں اور حکومت تعلیم کا بجٹ بڑھاۓ۔
سماجی عدم مساوات:
پاکستان میں شدید طبقاتی فرق موجود ہے۔ ایک طرف حکمران طبقہ ہے تو دوسری طرف محکوم۔ دونوں طبقات کے رہن سہن اور معاشرت سے لے کر نظریات اور زندگی کی ترجیحات تک، ہر چیز میں بہت فرق ہے۔ دونوں طبقات میں تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات تک رسائی میں بھی فرق ہے۔ دونوں طبقات کے معاشی وسائل بھی بہت فرق رکھتے ہیں۔ یہ سب چیزیں مل کر معاشرے میں عدم مساوات پیدا کرتی ہیں جو کہ بہر حال کسی بھی معاشرے کےلیے زہر قاتل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس عدم مساوات کی وجہ سے ایک طبقہ جہاں احساس تفاخر میں مبتلا ہوتا ہے، وہیں دوسرا طبقہ احساس محرومی سے دو چار ہوتا ہے۔
اس پر سونے پر سہاگہ ملک کے انصاف کا نظام بھی کمزور ہو تو معاشرہ بہت ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔ یہی سب پاکستان کے ساتھ بھی ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں غیر یقینی کی صورتحال ہے، عدم اعتماد کی کیفیت ہے اور لوگ پریشان ہیں۔ 2020 کی اقوام متحدہ کے ادارے کی عالمی خوشی اور اطمینان پر رپورٹ نے بد اعتمادی کو کسی بھی معاشرے کیلیے نہایت مضر گردانا ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس بد اعتمادی کی وجہ سے معاشرے میں ایک گھناؤنا چکر چلنے لگتا ہے جس کی لپیٹ میں نہ صرف شہری آتے ہیں بلکہ خود ریاست کے ادارے بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور معاشرہ پنپ ہی نہیں پاتا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ چکر نہ چلے تو ہمیں چاہیے کہ ہم معاشرے سے عدم مساوات ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں اور اپنے معاشرے کو برابری کی بنیاد پر استوار کریں۔