کیا کہہ رہا ہے سایۂ دیوار ، جانیے
ان دیواروں کی زندگی بھی کتنی پرسکون ہے۔ بڑے سے بڑا طوفان اٹھتا دیکھتی ہیں اوریوں مطمئن رہتی ہیں جیسے کچھ فرق ہی نہیں پڑتا۔
دیواروں میں موجود اینٹوں، سیمنٹ اور مٹی سبھی نے کتنی خوب قسمت پائی ہے۔ تعمیر کے وقت انہیں باہم مربوط کیا جاتا ہے تو قوت و اتحاد کا نمونہ بن جاتے ہیں۔ اگر ان دیواروں کی آنکھیں ہوتیں تو یہ کہاں اتنا عرصہ جی سکتی تھیں ، کم از کم زندگی سے تو ہار ہی جاتیں۔ لیکن سنا ہے کہ ان کے کان ہوتے ہیں اور یہ سب سنتی ہیں۔ اگر یہ انسانوں کے سبھی رویوں اور دو رنگیوں کو سنتے ہوئے سمجھ لیتی ہیں تو کیسے پر سکون رہ لیتی ہیں؟
یا شاید قدرت نے ان کو دیر تک صبر اور برداشت کرنے کی استطاعت بخشی ہے۔ کبھی زلزلے سے گری ہوئی عمارتوں کے ملبے کو دیکھا جائے تو ویسی ہی وحشت محسوس ہوتی ہے جیسی کسی اپنے کی میت کے سامنے اس وقت ہوتی ہے جب آنکھیں آنسوؤں کی زکوٰة دیتی اپنی ساری دولت بہا دیتی ہیں اور درد کے مارے سوجنے لگتی ہیں لیکن دل کا درد کم ہونے کو نہیں آرہا ہوتا۔ اس گرے ہوئے ملبہ کا دکھ انسان کے دکھ سے کہیں بڑا ہوتا ہے کہ یہ تو اپنے آپ میں کئی انسانوں کے رازوں کا امین اور مظلوموں کا واحد سہارا ہوتا ہے کہ اسکی دیواروں کے ہی گلے لگ کر دکھیارے اپنے غم کو کچھ دیر کے لیے غلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیواریں آہوں اور سسکیوں کی رازداری کے ساتھ ان کو جذب بھی کر لیتی ہیں۔ یہ ایسی ایماندار ہوتی ہیں کہ جس کے آنسو ان کے سامنے نکلے ہوتے ہیں ان کو بھی خبر نہیں ہونے دیتیں کہ کہیں کوئی دکھیارا اپنے غموں کو یادکرتےنہ رو پڑے۔
ایک غم زدہ انسان کے لیے سب سے بڑا آسرا کسی دوسرے کے کان ہی تو ہوتے ہیں جو اس کے غموں کو سن سکیں اور اسکے گرتے آنسوؤں کو تھام سکیں۔ کسی مغموم کی تنہائی میں کوئی اور بھی تو نہیں ہوتا، ماسوائے ان بے جانوں کے اور یہ منوں آنسوؤں کا بوجھ اٹھائے جیے چلی جاتی ہیں۔ جانداروں میں ایسے امین کہاں ملتے ہیں کہ یہ تو جب زلزلے کے باعث ڈھےجاتی ہیں تب بھی کسی کو کچھ نہیں کہتیں۔ اپنے اور دوسروں کے دکھوں کو اپنے ہی اندر رکھے موت کی طرف چلی جاتی ہیں۔ انسانوں کے اندر کا بوجھ انہوں نے سنبھالا ہوا ہے اور سبھی جانداروں کے اوزان کا بوجھ بھی ان کو ہی سنبھالنا ہوتا ہے۔
گارا، مٹی، اینٹیں یہ وہ بے جان ہیں جن سے کسی دن پوچھ گچھ بھی نہیں ہونی۔ یہ شاید انکی نیکیوں کا صلہ ہے کہ جن کے بارے کسی نے ان کو اتراتے بھی نہیں دیکھا۔ دردِ دل کے واسطے پیدا ہونے والے انسان کے درد کو بانٹنے والا بھی کوئی موجود ہے جو اوروں کے واسطے ہی جیتا اور ہارتا ہے۔ کئی خوبیوں میں سے بس سننے کی خوبی ہی کو دیکھ لیا جائے تو اطمینان ہوتا ہے کہ جب جب بھی مجبور انسان رونا چاہے گا تو اسے کوئی خاموشی سے سنتا ہوگا۔ جی بھر کے رونے کے بعد جو سوچ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے دراصل وہی آئندہ کا تعین کرتا ہے۔
سننے سمجھنے والی یہ دیواریں جب زمین بوس ہوتی ہیں تو ان کو مرتے دیکھنے کا کرب حقیقت میں ہمارا کرب ہوتا ہے کہ ہمیں اب یہ سہارا بھی دستیاب نہیں ہوگا اور تنہائی میں کوئی سننے سمجھنے والا نہیں ہوگا۔ کاش ہم بھی کوئی اینٹ اور سیمنٹ کی بنی دیوار ہوتے، درد کے ماروں کا سہارا ہوتے، اور اشک ریزی کی پابندی سے آزاد ہوتے۔