کیا کراچی مر رہا ہے؟
کراچی میرے ذہن میں ایڈگر ایلن پو کے ایل ڈوراڈو جیسا ایک شہر تھا۔ سمندر کے کنارے بسا شہر جہاں سنا تھا کہ راتیں جاگتی ہیں، شریفے، پپیتے اور ناریل کے درخت جھومتے ہیں۔
سمندری کھاڑیوں کے کناروں پر سمندری بگلے مچھلیوں پر تاک لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، جہاں موہٹہ پیلس اور قائد اعظم کا مزار ہے، ساحل سمندر ہے، جس پر سبز سمندری کچھوے انڈے دینے آتے ہیں، منگھو پیر کی پہاڑیاں ہیں، کلفٹن، نیٹی جیٹی، کیماڑی، منوڑہ اور کھارادر ہیں۔
یہ جھوٹ بھی نہ تھا۔ جو کراچی میں نے دیکھا وہ واقعی عروس البلاد تھا۔ جہاں لوگ رات گئے تک بنا خوف و خطر گھومتے تھے۔ جہاں زرد پتھر کے بنے خوبصورت گھر تھے، جہاں خواتین ساڑھیاں باندھا کرتی تھیں اور لوگ نہایت درست شین قاف سے اردو بولا کرتے تھے۔
کراچی مجھے بہت بھایا۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں جو 80 کی دہائی میں کراچی میں بسنے والے ہی جان سکتے ہیں۔ وہاں منگھو پیر کا مزار تھا، جہاں سست الوجود مگرمچھ پڑے اینڈتے تھے۔
ان مگرمچھوں سے میری دلچسپی بڑی گہری تھی۔ ایک تو یہ کہ یہ تحفہ ہمارے بابا صاحب نے ان کو دیا تھا۔ دوسرا ان کے بارے میں یہ روایت بھی بیان کی جاتی تھی کہ وہ پیر صاحب کے کمبل میں پڑی جوئیں تھیں جو انھوں نے اس تالاب میں جھٹکیں تو کرامات سے مگر مچھ بن گئیں۔
اتنی بڑی بڑی جوئیں دیکھ دیکھ کر خوف سے جھرجھری تو آتی تھی لیکن ایک تحیر آمیز دلچسپی بھی پیدا ہوتی تھی۔
پھر وہاں ایک مچھلی گھر تھا، جہاں میں نے پہلی دفعہ زرد رنگ کے سمندری گھوڑے دیکھے۔ بالکل شطرنج کے گھوڑوں جیسے، صرف منہ گھوڑے کا اور باقی جسم سوالیہ نشان کی طرح مڑا ہوا۔
تب میں کراچی پر ہزار جان سے عاشق ہو گئی کہ ہائے کیسا دلربا شہر ہے جہاں ایسے نفیس گھوڑے شیشے کے ایسے پیارے بکسوں میں دیکھنے دکھانے کو رکھے جاتے ہیں۔
مگر یہ عشق اس وقت مزید بڑھا جب بیگم عیسیٰ جعفر کے ساتھ ہاکس بے پر پکنک مناتے ہوئے ایک بڑا سا صدف ہاتھ لگا۔ سیپ زندہ تھا اور کھلا ہوا تھا اور اس میں سے گلابی سے رنگ کا گودا جھانک رہا تھا۔
سب خواتین نے شور مچا دیا کہ اس صدف کو چیرا جائے تاکہ اس میں سے موتی نکال لیے جائیں۔ فدوی اس وقت بھی ایک فسادی انسان تھی، ایسا گلا پھاڑ کے روئی کہ سب ڈر کے دور ہٹ گئے۔ ایک بالٹی میں سمندری پانی بھرا اور سیپ کو احتیاط سے اس میں رکھ لیا۔
اس وقت کراچی کے ساحل تیل سے چِپچِپے نہ تھے۔ سفید کیکڑوں اور سیپیوں سے ساحل بھرے رہتے تھے۔ چنتے جاؤ، چنتے جاؤ، جھولیاں بھر جائیں ، پھٹ جائیں مگر سیپیاں ختم نہیں ہوتی تھیں۔ جیلی فش کے ڈھیر ہوتے تھے اور مکرانی لوگ اونٹ لیے ساحل پر گھومتے تھے۔
ابھی ایسے ساحل بھی باقی تھے جہاں کھجور کی چٹائیوں سے بنی جھونپڑیوں میں زمین پر بیٹھ کے تازہ تلی ہوئی مچھلی کھائی جاتی تھی۔
سب سے بڑھ کے یہاں فرید احمد کی اصلی کیسٹ کہانی مل جاتی تھی۔
بڑے پیارے پیارے محبت کرنے والے لوگ اس شہر میں رہتے تھے کہ جن کا اب نام بھی لیتے ہوئے حلق میں آنسو اٹکتے ہیں۔
یہ شہر نہ تھا، شہرِ محبت تھا۔ مگر پھر جانے کیا ہوا، شہر کو شہر ہی نگل گیا۔ وہ مانوس چہرے، وہ محلے وہ بھلے لوگ، ہر بار لوٹ کے جانے پر نظر نہ آتے تھے۔ شہر والے بدل گئے یا شہر بدل گیا۔
بد امنی، سیاست، جرائم، آلودگی، نئی بنتی ہوئی آبادیاں، کراچی کو کھا گئیں۔ شریفے کے پیڑوں کی جگہ الیئر کا اجنبی درخت در آیا، ملیر ندی جانے کہاں گئی، سمندری کھاڑیوں کو پلازے کھا گئے، بگلے ماتم کرتے جانے کن خشک ساحلوں پر سر پٹک کر مر گئے، مچھلی گھر جانے ہے کہ نہیں اور اگر ہے تو وہاں اب بھی سمندری گھوڑے اسی تفاخر سے ننھی ننھی گردنیں اٹھائے تیرتے ہیں؟
ہوٹل کے سرد کمرے میں ایئر کنڈیشنر کی سرد مہر خنکی ہوتی ہے مگر کراچی کی سمندری ہوا کی باس نہیں۔ بالکنی میں چیلیں بیٹھتی ہیں اور گرد، کوڑے میں اٹے شہر کو کینہ توز آنکھوں سے دیکھتی رہتی ہیں۔
کراچی کی یادوں میں سب سے بڑی یاد شمع خالہ تھیں۔ آخری بار میں ان سے ملی تو میرینا کلب کے خالی ہال میں بیٹھ کر رات گئے تک پرانے کراچی کو ہی یاد کرتے رہے۔
اب کی بار کراچی گئی تو وہاں شمع خالہ تھیں اور نہ ہی کراچی۔ خالہ کو قضا اپنے ساتھ لے گئی اور کراچی، کوڑے کی کراچی بن چکی تھی۔ جگہ جگہ سڑاؤ سڑ رہے تھے، مکھیاں، کوڑا، سڑکوں پر کھڑا پانی ہر جگہ دکھائی دیا اور بجلی کے لٹکتے ہوئے تار موت کے فرشتے بنے ایستادہ تھے۔
یہ وہ شہر تو نہ تھا جہاں میرے پیارے رہتے تھے۔ یہ ایک اجنبی شہر تھا۔ سب شریفے، ناریل اور پپیتے مر چکے تھے۔ سمندر، ایک گدلا بحر تھا، جس کی لہروں پر دو نسلوں سے جاری اس شہر سے محبت کی نعش آلودگی کی صورت بہہ رہی تھی۔
میں پریشان سڑک در سڑک کراچی کو کھوجتی رہی۔ گندے میلے ساحلوں پہ، غلیظ سڑکوں پر اونچے فلیٹوں کی بوسیدہ ہوتی عمارتوں کے درمیان۔ مجھے کراچی نہیں ملا۔
واپسی پر جانے کیسے پرانے سامان سے وہی سیپ نکل آیا جسے تین دہائیوں سے سینت کر رکھا ہوا ہے۔ شمع خالہ کہتی تھیں کہ سیپ سے کان لگا کر سنو تو سمندر بات کرتا ہے۔
میں نے سیپ کو کان سے لگایا تو ایک سناٹا تھا۔ پھر ایک ہوک سی سنائی دی جیسے کوئی بہت بڑی مخلوق آہ سرد کھینچ رہی ہو اور پھر لہروں کا خروش اور ایک سیٹی جیسی چیخ، کوئی حلق پھاڑ کے چلایا تھا ’کراچی مر رہا ہے‘۔
گھبرا کے سیپ کان سے ہٹا دیا۔ چاروں طرف سناٹا تھا، گہرا سناٹا۔
عزیزو! کراچی کی خبر لینا، اسے بچانا۔ یہ شہر نہیں، شہرِ محبت ہے۔ یہ اجڑا تو سب برباد ہو جائے گا۔ مشتری ہوشیار باش!