کیا واقعی چاند پر انسانی بستیاں بسائی جاسکتی ہیں؟
اگر اس سوال کا جواب ایک جملے میں دینا ہو کیا واقعی انسان چاند پر بستیاں بسا سکتا ہے؟ تو اس کا جواب ہوگا۔ جی ہاں۔ ایسا ممکن ہے۔
جی ہاں!اب ہم تصور کرسکتے ہیں کہ چاند پر بستیاں آباد کرنے کے انسانی منصوبے عملی صورت اختیار کرجائیں گے۔خیال کیاجاتا ہے چاند پر مکان بنانے کے لیے سب سے زیادہ موزوں اورمناسب جگہ چاند پر واقع غار اور سرنگیں ہوں گی۔اس کی دووجوہات ہیں:
پہلی یہ ہے کہ کرہ ہوائی کی عدم موجودگی کے باعث چاند کی سطح پر بکثرت شہاب ثاقب گرتے رہتے ہیں۔اس لیے کھلی فضا میں رہنا ممکن نہیں ہے۔غاروں اور سرنگوں میں رہنے سے انسان شہاب ثاقبوں سے محفوظ رہ سکے گا۔اس کے علاوہ چاند کے غاروں میں درجہ حرارت تقریباَایک جیسا رہتا ہے،جب کے غاروں سے باہر دن کے وقت شدید گرمی ہوتی ہےاور رات کو سخت سردی پڑتی ہے۔
شروع شروع میں ’’چاندگھر‘‘ ایسے پلاسٹک سے بنائے جائیں گےجس میں سے ہوا نہ گزر سکے۔ان مکانوں کو غبارے کی طرح پھلا کر غاروں میں لٹکا دیا جائے گا۔چونکہ چاند پر سانس لینے کے لیے ہوا نہیں ہے۔اس لیے ابتدائی ’’نوآبادکاروں‘‘کو سانس لینے کے لیے آکسیجن اپنے ساتھ لے جانا پڑے گی اور چاند پر رہنے والے اپنے مکانوں سے باہر نکلنے کے لیے آکسیجن کا ماسک پہنا کریں گے۔تاہم غبارے کے مکانوں کے اندر رہتے ہوئے ماسک پہننے کی ضرورت نہیں ہوگی۔کیونکہ ان میں پہلے ہی سے ہوا موجود ہوگی۔شاید ان غبارہ نما مکانوں میں پلنگ میزیں،کرسیاں اور صوفے بھی ہوں گے۔
چاند گھروں کو بنانا بہت آسان ہوگا۔چاند کی کشش زمین کی کشش کے مقابلے میں بہت کم ہے۔چاند کی سطح پر ہر چیز کا وزن زمین کے مقابلے میں چھ گنا کم ہوجاتا ہے۔
تاہم ایسا بھی نہیں کہ ہم کل ہی چاند پہ جانے کے لیے تیار ہوجائیں۔بلکہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ابھی انتھک محنت،بے پناہ لگن،ان گنت لوگوں کی ذہنی اور جسمانی توانائی کے علاوہ کثیر رقم کی ضرورت ہے۔اور پھر
بستی بسنا کھیل نہیں ،بستے بستے بستی ہے