کیا ہارپ ٹیکنالوجی سے شدید بارشوں اور سیلاب کو روکنا ممکن تھا؟
پاکستان میں مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے چاروں صوبے سیلاب کی زد میں ہیں۔ اس وقت سیلاب متاثرین کی مدد، ان کی بحالی اور نقصانات کے ازالے لیے پاکستانی حکومت اور خیراتی ادارے مصروف عمل ہیں۔ لیکن اس وقت ایک اور بحث بھی شروع ہوچکی ہے کہ آیا بارشوں کے نظام پر قابو پانا ممکن ہے۔کیا سیلاب کو روکنا ممکن تھا؟ کیا پاکستان میں یہ بدترین سیلاب ہے اور اچانک آیا ہے؟ اس ضمن میں ہارپ ٹیکنالوجی بھی ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ سوال پوچھا رہا جارہا کہ کہیں پاکستان میں حالیہ بارشوں کی پیچھے "امریکی سازش" تو نہیں۔۔۔آخر یہ ہارپ ٹیکنالوجی کیا ہے؟ کیا پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال ممکن ہے؟ یہ ٹیکنالوجی کیسے استعمال ہوتی ہے۔۔۔اور اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات کیا ہیں؟؟؟
آئیے ان سب سوالات کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں!
پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیاماحولیاتی نظام کوواقعی حسبِ خواہش قابوکیاجاسکتاہے؟ دوسرا یہ کہ کیا واقعی”ہارپ“ (HAARP) نامی کوئی ایسی خطرناک ٹیکنالوجی موجودہےجس کی مددسے دنیا میں کہیں بھی جگہ طوفان، بارش اورزلزلہ پیدا کیا جا سکتا ہے؟
2010 میں جب پاکستان میں شدید بارشیں ہوئی تھیں اور پاکستان کو شدید سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا تو اس وقت بھی کچھ نام نہاد صحافیوں نے اسے امریکہ کی سازش قرار دیا تھا اور اخبارات میں اس پر کافی بحث ہوئی تھی۔ اس سال کی شدید بارشوں کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر ویسی ہی بے سرو پا بحث شروع ہو رہی ہے کہ یہ شدید بارشیں اور سیلاب دراصل امریکہ کی ایک خفیہ ٹیکنالوجی "ہارپ" کی وجہ سے واقع ہوئی ہیں۔ آئیے اس موضوع کا سائنسی اور منطقی تجزیہ کرتے ہیں۔
ہارپ ٹیکنالوجی کو سمجھنے سے پہلے ایک خاص اصطلاح "موسمیاتی کنٹرول" کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
"موسمیاتی کنٹرول" کی سائنسی تعریف
موسمیاتی کنٹرول (weather control)سے مرادیہ ہے کہ ماحول میں حسب خواہش تبدیلیاں پیدا کرکے اسے انسان کے فائدے کے لیے استعمال کیاجاسکے اور اس کے مضراثرات سے محفوظ رہاجاسکے۔ مثال کے طورپرخشک سالی کے شکار علاقوں میں بارش برسانااورآبادی والے علاقوں کو خطرناک آندھیوں اورطوفانِ بادوباراں (tornados and hurricanes)سے محفوظ رکھنا وغیرہ۔
کیا پاکستان میں سیلاب "اچانک" آیا ہے؟
یہ کہنا صریحاََ غلط ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب، جس سے اب تک تین کروڑ سے زائد افراد متاثرہوچکے ہیں، کسی پیشگی اطلاع کے بغیر آیاہے۔ ماہرین موسمیات نے اس سال غیر معمولی بارشوں کی پیش گوئی کی تھی لیکن افسوس کہ اس سلسلے میں کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہ کئے گئے۔ آب وہوا، ماحولیات اورموسمیات کے ماہرین ایک مدت سے خبردارکرتے آرہے ہیں کہ اگر ہم نے زمینی ماحول کے ساتھ بے رحمی برتنے اوراس کرۂ ارض سے دستیاب وسائل بے دریغ استعمال کرنے کا سلسلہ نہ روکا توپھربڑی اوربھیانک قدرتی آفات کا راستہ روکنا بھی ہمارے بس سے باہر ہوگا۔
بہر حال جو نقصان ہونا تھا، وہ تو ہوچکا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے کچھ”ماہرین“اور”تفتیشی صحافیوں“نے نہ صرف اس بدترین سیلاب کو ”امریکی سازش کا نتیجہ“قراردے دیابلکہ ہیٹی، چین اور2005میں پاکستان میں آنے والے بھیانک زلزلوں کے ساتھ ساتھ 2004میں بحرالکاہل میں آنے والی سونامی کو بھی اسی ”دجالی امریکی ٹیکنالوجی“کا شاخسانہ قراردیا۔ کیا اخبارات اورکیا انٹرنیٹ، سب پر اس ”امریکی سازش“ کے بارے میں سینکڑوں نہیں تو درجنوں تحریریں لازماََموجودہوں گی۔ بیشتر مضامین میں یہ تک نہیں بتایاگیا کہ جس ٹیکنالوجی کی بدولت امریکہ(مفروضہ طورپر)زلزلے، طوفان اورسیلاب برپاکرنے کے قابل ہوگیاہے، اس کاپورانام کیاہے۔ بس چند ایک تحریروں میں اس ٹیکنالوجی کانام”ہارپ(HAARP)“بتانے پرہی اکتفا کیاگیا۔
ہارپ (HAARP) ٹیکنالوجی کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ ”ہارپ“کوئی نام نہیں بلکہ ایک طویل نام، یعنی”ہائی فریکوئنسی ایکٹیوآرورل ریسرچ پروگرام“ (High-frequency Active Auroral Research Program)کامخفف ہے۔ دوسری بات یہ کہ ”ہارپ“ بذات خودکوئی ٹیکنالوجی بھی نہیں بلکہ ایک منصوبہ ہے جس کا مقصد ریڈیائی سائنس، بالاکرۂ ہوائی اورشمسی ارضی ریڈیائی طبیعات کے میدان میں تحقیق کرناہے۔ یہ منصوبہ چند غیرمعمولی مظاہرفطرت اورریڈیائی رابطوں پرتحقیق کے لیے شروع کیاگیا۔
زمین کے قطبین(یعنی قطب جنوبی اورقطب شمالی)اوران کے قرب وجوار کے علاقوں میں آسمان پراکثراوقات پراسرارروشنیاں نظرآتی ہیں جنھیں اردومیں ”انوارقطبی“اورانگریزی میں ”آرورا(aurora)“کہا جاتاہے۔ ان روشنیوں کی وجہ زمین کے مقناطیسی میدان اور سورج سے زمین کی طرف آنے والے باردار ذرات(الیکٹرون اورپروٹون وغیرہ) پرمبنی طاقتور بوچھاڑوں (شمسی ہوا) کا آپس میں تصادم ہے۔
زمین کا مقناطیسی میدان کسی غلاف کی مانندزمین کے گرد لپٹا ہواہے۔ اسی میں زمینی کرۂ ہوائی کا وہ حصہ بھی واقع ہے جسے”کرۂ روانی“یعنی آئنو سفئیر (ionosphere)کہاجاتاہے اور جو سطح زمین سے تقریباََ58کلومیٹر سے شروع ہوکر825کلومیٹرسے بھی اونچا چلاجاتاہے۔ آئنواسفیئرمیں باردار ذرات، بشمول الیکٹرون، پروٹون،باردار ایٹم اورسالمات بکثرت پائے جاتے ہیں، جو اسے کرۂ ہوائی کے دوسرے حصوں سے ممتازکرتے ہیں۔ پراسرارقطبی روشنیاں بھی اسی آئنواسفئیرمیں جنم لیتی ہیں۔
”ہارپ“منصوبے کا پہلا مقصدانھی ”انوارقطبی“(aurora)پرتفصیلی تحقیق کرناہے کہ یہ کیسے اورکب پیدا ہوتی ہیں اور یہ کہ کیاان کی مدد سے کسی قسم کے ماحولیاتی عوامل(زلزلہ وغیرہ)کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے یانہیں؟
لیکن ”آرورا“کے علاوہ آئنواسفیئراورشمسی ہوا میں ہونے والا یہی ٹکراؤکئی اور طرح کی شدید برقی مقناطیسی شعاعیں پیدا کرنے کا باعث بھی بنتاہے جنھیں ہم آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے لیکن مواصلاتی سیارچوں کی نشریات میں پڑنے والے خلل کے طورپرضرورمحسوس کرسکتے ہیں۔
حیرت انگیز طورپراس عمل کاالٹ بھی درست ہے۔ یعنی اگر ا ٓئنواسفئیراانسان کے بنائے ہوئے ریڈیائی مواصلاتی نظام کو متاثر کرتاہے تویہ خود بھی اس مواصلاتی نظام سے متاثرہوتاہے۔ آج یہ بات پایہء ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ زمین پر موجود ہائی فریکوئنسی(HF)ٹرانسمیٹرز، جن میں طاقتورریڈاراوربڑے ریڈیو/ٹی وی اسٹیشن وغیرہ شامل ہیں، اپنی نشرکردہ ریڈیائی لہروں کی بدولت ا ٓئنواسفئیرمیں محدودپیمانے پرتبدیلی لاسکتے ہیں۔ ا ٓئنواسفئیرکا یہ تبدیل شدہ حصہ، اپنے اندر سے گزرنے والی دوسری ریڈیولہروں کے نہ صرف راستے بدل سکتا ہے بلکہ ان کے تعدد(فریکوئنسی) میں بھی تبدیلی لاسکتاہے۔
ہارپ منصوبہ کب شروع ہوا؟
ا ٓئنواسفئیرپرتحقیق کے میدان میں ”ہارپ“بھی ایک ایسا ہی منصوبہ ہے جس کا آغاز 1990کے عرصے میں شروع ہوااوراب بھی اس میں ترامیم واضافہ جات کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ کوئی پراسرارمنصوبہ تونہیں، البتہ اسے ا ٓئنواسفئیرپرتحقیق کے میدان میں اپنی نوعیت کاسب سے بڑا منصوبہ ضرورقراردیاجاسکتاہے، جوانواع واقسام کے زمینی ٹرانس میٹروں اوردیگرپیچیدہ آلات سے لیس ہے۔
علاوہ ازیں، عام تاثرکے برخلاف، یہ اپنی نوعیت کااکلوتامنصوبہ بھی ہرگزنہیں؛ اورنہ ہی ایسا کوئی منصوبہ ہے جس پر صرف امریکہ ہی کام کررہاہے۔ حالیہ برسوں کے دوران آئنواسفئیرپرتحقیق کے لیے (ہارپ کے علاوہ)دواورامریکی منصوبے بھی کام کررہے ہیں؛ ایک ”ہیپاس“(HIPAS)کے نام سے الاسکامیں اور دوسراپورٹریکومیں مشہورزمانہ”آری سیبورصدگاہ“کے قریب۔ ان دونوں منصوبوں میں کم وبیش ویسے ہی آلات استعمال ہوئے ہیں جیسے ہارپ میں نصب ہیں، اور ان کا مقصد بھی وہی تھا یعنی آئنواسفئیرپرتحقیق کرنا۔
علاوہ ازیں، آئنواسفئیرپرتحقیق کی غرض سے،یورپ کے پانچ ممالک پر مشتمل ایک کنسورشیم کے تحت”یورپین انکوہیرنٹ اسکیٹرریڈارسائٹ“(EISCAT)نامی تجربہ گاہ، ناروے میں ترومسو کے قریب واقع ہے جسے بلاشبہ ہارپ کا یورپی مدمقابل کہہ سکتے ہیں۔ اس میدان بھی روس بھی مصروف عمل ہے اور وہاں بھی آئنواسفئیرپرتحقیق کے لیے دو بڑی تنصیبات موجود ہیں۔
"ہارپ "ہی کیوں مشہور ہے؟
ہارپ کو دیگر تمام منصوبوں پر اس لحاظ سے فوقیت حاصل ہے کہ اس میں موجود آلات زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ حساس ہیں۔ ہارپ کا سب سے مشہور آلہ ”آئنواسفئیرک ریسرچ انسٹرومنٹ“(IRI)ہے جو ایک وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے، اونچے اونچے انٹیناؤں کے جال کی شکل میں ہے۔ اور اس کے ذریعے آئنواسفئیر کے محدود علاقے کو وقتی طورپرہیجانی کیفیت میں مبتلا کیا جاسکتاہے۔ ہارپ کے دیگر آلات ان تبدیلیوں کا مطالعہ کرتے ہیں جو ایسے کسی ہیجان زدہ علاقے میں وقوع پذیرہوتی ہیں۔ہارپ کی یہ تنصیبات الاسکا کے شہر،گوکانامیں امریکی فضائیہ کے زیرانتظام علاقے میں واقع ہیں۔
ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہارپ کا سب سے اہم مقصدآئنواسفئیرپرتحقیق کرنااور اس کی ماہیت کو سمجھناہے۔ یہ غرض اپنی ذات میں کلیتاََ پرامن ہے جس پر کسی کو تشویش نہیں ہونی چاہئیے۔
ہارپ کا دوسرا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس سے حاصل ہونے والی معلومات کو ایسی ٹیکنالوجی وضع کرنے میں استعمال کیا جائے گا جس کی مدد سے آئنواسفئیرمیں بوقت ضرورت تبدیلیاں کی جاسکیں؛ تاکہ ریڈیائی رابطوں اور دشمن کی نگرانی (سرویلنس)جیسے امور میں سہولت پیدا ہو۔ لیکن ان تبدیلیوں کے ذریعے کسی بھی مخصوص علاقے میں طوفانی بارش یازلزلہ پیدا کرنے کا کوئی سائنسی جوازمحض قیاس آرائی ہے۔
ان دو مقاصد کے علاوہ، اگرہارپ کا کوئی تیسرا”خفیہ“مقصدہے توہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے...اور اگرواقعتا اس کا کوئی خفیہ مقصدہے تواس کے لیے ہمیں قابل بھروسہ اور باوثوق ذرائع درکار ہیں۔ ہمیں ناقدین کی رائے کا احترام ہے اورہم یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ امریکہ اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد سے گزرسکتاہے، لیکن سردست ہمارے پاس ایسی کوئی مصدقی دستاویزات موجودنہیں جسے بنیاد بنا کرہم کہہ سکیں کہ امریکہ ”ہارپ“کی مدد سے دنیا میں کہیں بھی زلزلہ یاطوفانی بارش لاسکتاہے۔