خواجہ حسن نظامی کی نثر اور اردو کلچر

مولانا صلاح الدین احمدکے بارے میں مشہورہے کہ محمد حسین آزاد کی دربار اکبری رات کو عموما ًاپنے آس پاس رکھتے تھے۔ کہتے تھے کہ ’’دن بھر خراب اردو سنتے سنتے طبیعت مکدر ہو جاتی ہے تو سونے سے پہلے ایک دو صفحے اس کتاب سے پڑھ لیتا ہوں۔‘‘ گویا کہ اچھی زبان پڑھنا، دراصل اپنے آپ کو پھر سے پانے اور یکجا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ زندگی کی مکروہات میں آدمی صبح شام خود کو ضائع کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اپنے آپ سے کٹتے کٹتے ایک روز صرف دنیا کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اپنے آپ کو بچائے رکھنے یا اپنی پہچان اپنے پاس رکھنے کی کوئی نہ کوئی صورت تو ہونی ہی چاہئے۔


سو، اچھی نثرونظم بھی اس مشکل سے نکلنے کا ایک وسیلہ ہوتی ہے۔ نثر ونظم کا دل کو لگنے والا اسلوب اپنے آپ میں ایک مکمل تجربہ ہوتا ہے۔ یہ تجربہ ذہن کی اوپری سیرت کے ساتھ ساتھ شخصیت کی گہرائیوں تک پہنچنے کا راستہ بھی بنا لیتا ہے۔ ہمارے شعور کے علاوہ ہماری بصیرتوں پر، ہمارے وجدان اور ہمارے وجود کو اساس مہیا کرنے والی قدروں پربھی اثرانداز ہوتا ہے۔ نثر کے بار ے میں بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کا عمل معنی کی منتقلی یا خیال کی ادائیگی کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اچھی نثر، شاعری کی طرح محض پڑھی نہیں جاتی۔ دیکھی، چکھی، سنی، سونگھی اور چھوئی بھی جا سکتی ہے۔ لفظ آنکھوں کے راستے ہمارے دل میں اترتے جاتے ہیں اور بتدریج ہمارے پورے وجود کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔


پروفیسر مجیب کا ایک یادگار جملہ اس طرح ہے کہ ’’تہذیبیں دن کے اجالے کے طرح دھیر ے دھیرے پھیلتی ہیں۔‘‘ اچھی نظم ونثر کے ساتھ بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ میر اور انیس کی شاعری کی طرح، میر امن، غالب اور محمد حسین آزاد کی نثر بھی رفتہ رفتہ ہمارے حواس کے گرد روشنی کا دائرہ مسلسل پھیلاتی جاتی ہے، یہاں تک کہ ہم اپنے آپ کو تہذیب کے ایک مکمل تجربے سے دوچار پاتے ہیں۔


خواجہ حسن نظامی کی نثر ایک نہایت منفرد، رنگارنگ اور دلچسپ شخصیت کا اظہار ہے۔ مگر اپنے آ پ میں یہ نثر ایک ہمہ گیر تہذیبی تجربہ بھی ہے۔ ان کی کسی بھی تحریر کو پڑھتے ہوئے اس تاثر سے ہم خود کو الگ نہیں رکھ سکتے کہ ہمارا تعارف درحقیقت صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہا۔ ایک بھرپور اور توانا تہذیب بھی ہمارے تجربے میں آئی ہے۔ خواجہ صاحب کی نثر ہمیں ایک ساتھ کئی جہانوں کی سیر کراتی ہے۔ انسانی واردات اور احساسات کے بہت سے دروازے ہم پر اس نثر کی مدد سے کھلتے ہیں۔ محمد حسین آزاد نے لکھا تھا، ’’زبان ایک جادوگر ہے جو کہ طلسمات کے کارخانے الفاظ کے منتروں سے تیار کرتا ہے اور جو اپنے مقاصد چاہتا ہے، ان سے حاصل کر لیتا ہے۔ وہ ایک چالاک عیار ہے جو ہوا پر گرہ لگاتا ہے اور دلوں کے قفل کھولتا اور بند کرتا ہے۔ یا مصور ہے کہ ہوا میں گلزار کھلاتا ہے اور اسے پھول، گل، طوطی اور بلبل سے سجا کر تیار کر دیتا ہے۔ (نیرنگ خیال، حصہ اول)


خواجہ صاحب کی نثر کا امتیازیہ ہے کہ بہ ظاہر مانوس ہوتے ہوئے وہ اتنی ہی مرموز بھی ہوتی ہے۔ اپنی سادگی کے باوجود پڑھنے والے کی حیرتوں کو جگائے بھی رکھتی ہے۔ وہ ہمیں بادی النظر میں جتنے بے تکلف دکھائی دیتے ہیں، ان کی شخصیت اپنی نثر میں اسی قدر اسرار آمیز بھی ہوتی ہے۔ یہ شخصیت زمین اور مظاہر کی دنیا سے اپنا رشتہ کبھی ٹوٹنے نہیں دیتی، تاہم اسی کے واسطے سے ہم نادیدہ دنیاؤں کے اسرار تک بھی پہنچتے ہیں۔ خواجہ صاحب کی شخصیت میں ایک طرف تو دور سے بھی دکھائی دینے والی، غیر معمولی عنصری سادگی کے اوصاف ملتے ہیں، دوسری طرف اس کی مانوس اور موہنی شخصیت کی ایک مخصوص مابعدالطبیعات بھی ہے جس کا سلسلہ ان کے روزنامچوں، چہروں، سفرناموں، انشائیوں سے لے کر نظامی بنسری تک پھیلا ہوا ہے۔


جس شخص نے پچھہتر برس کی زندگی میں تجربے کی دیدہ اور نادیدہ دنیاؤں سے متعلق چھوٹی بڑی کوئی دو سو کتابیں لکھی ہوں، اس کے حواس کی دسترس کا اندازہ ہم آسانی سے نہیں کر سکتے۔ یہ ایک لمبی مہم اور مسافت تھی جس کا سلسلہ مکاں سے لامکاں تک اور جسم وجاں سے روح کی وسعت بے کراں تک پھیلا ہوا ہے۔ خواجہ صاحب کی شخصیت ہمیں بار بار اپنی عام انسانی سطح سے اوپر اٹھنے اور ہستی کے ازلی اور ابدی اسرار میں حقیقت کی تلاش کرنے پر اکساتی ہے۔ یہ شخصیت جانے اور ان جانے رنگوں کا ایک عجیب و غریب مرقع تھی۔


خواجہ صاحب کی نثر کا دوسرا واسطہ، جس سے ان کی پہچان ہوتی ہے ان کی زبان اور اسلوب کا ثقافتی پہلو ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو خواجہ صاحب کی نثر، تن تنہا ایک فردکے علاوہ ایک پورے عہد کا، اس عہد سے منسلک نظام اقدار کا، قدروں کی تہہ میں چھپے ہوئے ایک اجتماعی طرز احساس کا آئینہ بھی بن جاتی ہے۔ دراصل اسی سطح پر خواجہ صاحب کی نثر وجود کی چھوٹی بڑی کائناتوں Micrososm اور دونوں کا احاطہ ایک ساتھ کرتی ہے۔ حقیقت کی وہ شکل اور سطح جو ہماشاسب کے سامنے ہے اور حقیقت کی وہ شکل جن کی تھرتھری صرف زیرسطح محسوس کی جا سکتی ہے، خواجہ صاحب کی نثر کا جال ان دونوں پر پھیلا ہوا ہے۔ خواجہ صاحب کی نثر زمین سے لگ کر چلتی ہے، ہر شئے کا نام پوچھتی ہے، ہر مظہر سے اپنا تعارف کراتی ہے، مگر اپنے آپ کو چھپائے بھی رکھتی ہے۔ انہیں خیالوں (Concepts) سے اور چیزوں (Things) سے یکساں دلچسپی ہے۔ میرا خیال ہے کہ خواجہ صاحب کے طرز احساس اور طرز اظہار کا یہی ایک وصف اتنا بڑا اور بسیط ہے جو ان کے ہم عصروں میں انہیں ممتاز کرنے کے لئے کافی ہے۔


یاد کیجئے ہمارے میر صاحب ایک شخصیت سے، ہم سفری کے باوجود صرف اس بنا پر بات کرنے کے روادارنہ ہوئے کہ انہیں اپنی زبان کے بگڑ جانے کا اندیشہ تھا۔ گویا کہ زبان محض بے جان لفظوں کا مجموعہ نہیں ہوتی، ایک جاگتی ہوئی، سوچتی اور سانس لیتی ہوئی تہذیب کی ترجمان، ایک زندہ روایت کا سلسلہ بھی ہوتی ہے۔ محمد حسین آزاد نے ایک جگہ لکھا تھا (نیرنگ خیال، حصہ اول) کہ کسی قوم یا قبیلے کی طرح الفاظ بھی ترقی و تنزل کرتے ہیں، سفر کرتے ہیں، اسی میں طبیعت اور رنگ بدلتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں۔ جس طرح قوموں کی تاریخیں اپنے حالات و مقالات سے کمہلائے ہوئے دلوں کو شگفتہ کرتی ہیں، لفظوں کی تاریخیں اپنے لطف و خوبی کے ساتھ اس سے زیادہ دماغوں کو شاداب کرتی ہیں۔


زبانوں کا عالم اپنے ا لفاظ کے ساتھ آباد ہے۔ زبان کا ایسا گھناپن ہمیں خواجہ صاحب کے ہم عصر لکھنے والوں میں اور کسی کے یہاں نہیں دکھائی دیتا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھرا پرا، گنجان، بھانت بھانت کے تجربوں سے چھلکتا ہوا منظر یہ محض تصورات یا محض موجودات اور مظاہر کے بیان سے مرتب نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے وہ جدلیاتی توازن اور تصور و تجربے کے مابین وہ تناسب ضروری ہے جو لکھنے والے کی بساط کو سمٹنے نہ دے اور اسے ایک ساتھ طبیعی اور مابعد الطبیعاتی واردات پر پھیلا سکتے ہیں۔ خواجہ صاحب کے موضوعات میں جس رنگارنگی اور تنوع اور بوقلمونی کا تجربہ ہوتا ہے، اس تجربے تک ہم ان کی لفظیات اور ان کے اسالیب کی وساطت سے بھی پہنچتے ہیں۔ بہت سے لکھنے والے اپنے طریق اظہار کی یکسانیت سے پہچانے جاتے ہیں اور اکثر لکھنے والوں کے یہاں ایک طرح کی تھکا دینے والے ایک رنگی ان کے صاحب اسلوب ہونے کا سبب ٹھہرتی ہے۔


خواجہ صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بہت لکھا اور اپنے موضوعات، خیالوں اور تجربوں کی ضرورت کے مطابق بہت سے لہجے اختیار کئے اور ایک بہت وسیع ذخیرہ الفاظ کو اپنے مصرف میں لائے۔ شیکسپئر کے بارے میں عام اندازہ یہ ہے کہ اس نے تقریبا ًچھبیس ہزار لفظوں کا استعمال کیا، دوسری طرح یہ بات یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ انسانی تجربوں اور مقدرات کو سمجھنے کے چھبیس ہزار ذرائع پر اس کے تخیل اکا اقتدار پھیلا ہوا ہے۔ خواجہ صاحب کی تحریروں میں الفاظ کا جو ذخیرہ بکھرا ہوا ہے، اسے شمار کرنا آسان نہیں، تاہم قیاس کہتا ہے کہ ہمارے انشاپردازوں میں اس سطح پر ان کا سامنا بس اکادکا لکھنے والے ہی کر سکیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ خواجہ صاحب کی زبان دانی اور لفظیات پر عبور سے زیادہ ان کے شعور کی وسعت اور ان کے تخیل کی جولانی ہے، جس کے لئے انسانی واردات، جذبے اور احساس کی کوئی بھی حد آخری حد نہیں ہوتی۔


محمد حسن عسکری نے اشرف صبوحی کی نثر کے جائزے میں ایک معنی خیز بات یہ کہی تھی کہ اس سے صرف ایک فرد کی محدود انفرادیت کا اظہار نہیں ہوتا۔ اسے پڑھتے وقت پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ ’’وہ ایک جماعت کی طرف سے بول رہے ہیں۔ ان کا رشتہ جمہور سے نہیں ٹوٹا ہے۔ ان کی اور عوام کی حسیاتی زندگی میں بڑی یگانگت ہے اور وہ اپنے جمہور کے ساتھ مل کر اپنی جماعت کی زندگی کے لطف لے سکتے ہیں۔‘‘ اس سلسلے میں عسکری صاحب کا یہ تاثر بھی درست ہے کہ دلی کی تہذیب کا سب سے بڑا امتیاز اور اس کی عظمت کا سب سے بڑا سبب جمہور کے دلوں سے اس کی قربت تھی۔ لیکن انسانی احساسات اور تجربوں کی تہہ درتہہ سطح پرگرفت کے لئے صرف سامنے کی زندگی سے شناسائی کافی نہیں۔ صرف مشاہدہ کافی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ صرف مطالعہ اور جذبہ بھی کافی نہیں ہے۔ تخیل اور تفکر کی دنیا روزمرہ تجربات کی دنیا سے آگے بھی جاتی ہے۔ اور یہ دونوں دنیا ئیں مل کر کسی تہذیب کا تانا بانا تیار کرتی ہیں۔ چنانچہ زمانوں کو عبور کرنے والی نثرتہذیب کے فطری بہاؤ کو اپنے اندر سموئے بغیر وجود میں نہیں آتی۔


ہمارے زمانے کے ادب کو جو روگ لگے ہیں ان میں سب سے مہلک روگ اتھاہ اور بیکراں تہذیبی زندگی سے لکھنے والوں کی لاتعلقی ہے۔ لوگ اپنے خول میں سمٹتے جاتے ہیں اور خود کو یہ سمجھاتے رہتے ہیں کہ اس طرح وجودی تجربے کا حق ادا کیا جا رہا ہے۔ اردو کی مرکزی روایت کا شناس نامہ ہی اجتماعی زندگی کے مظاہر سے اس کی وابستگی کا تیار کردہ ہے۔ اس کی بنیادی رو، تہذیب کے کئی ادوار اور ایک رنگارنگ، مشترکہ قدروں کی امین قوم کے روحانی آشوب سے جڑی ہوئی ہے۔ روایت یہ ہے کہ پچیس چھبیس برس کی عمرمیں خواجہ صاحب جو گیا بانازیب تن کرکے ایک لمبی اور پرپیچ روحانی جاترا پر بھی نکلے تھے اور اس سفر کی ایک روداد بھی مرتب کی تھی۔ وہ روداد تو شاید سامنے نہیں آئی لیکن ان کا یہ تجربہ مصدقہ ہے۔


یہاں اس کی طرف اشارہ کا مقصد صرف اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ خواجہ صاحب کی نثر کو عقبی پردہ مہیا کرنے کے تجربے ایک ساتھ دیکھی ان دیکھی کئی دنیاؤں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی لئے ان کے اسلوب میں بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ ان کے اسالیب میں ملال آمیز تجربوں کا بیان بھی اس وقار اور طمانیت کے ساتھ ہوا ہے جو شخصیت میں گہرائی کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ خواجہ صاحب صرف دنیا کے نہیں آپ اپنے تماشائی بھی تھے، اسی لئے وہ خود کو بھی اسی عالم آب و گل کے ایک حوالے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس پر حقارت یا دوری یا لاتعلقی کی نظر نہیں ڈالتے۔


میر امن، غالب، محمد حسین آزاد۔۔۔ ان سب کی نثر کا جادو اسی واقعے میں مضمر ہے۔ ہمارے زمانے نے گئے زمانوں کے کئی سبق بھلا دیے۔ مقام شکر ہے کہ خواجہ صاحب کی نثر نے ایک یہ سبق یاد رکھا کیونکہ اردو کی مرکزی روایت کے مستقبل اور اس کی بقا کا دارومدار بھی اسی واقعے پر ہے۔ یہی واقعہ اردو کلچر کی زندگی کا ضامن بھی ہے۔ اسے بھلانے کا مطلب ہے اپنے آپ کو بھول جانا۔ پڑھنے میں تو نیاز فتح پوری اور ابوالکلام کی نثر بھی اچھی لگتی ہے مگر ان کے واسطے سے ہم ا پنے آپ کو اس طرح پہچان تو نہیں سکتے۔