خوابوں سے یوں تو روز بہلتے رہے ہیں ہم
خوابوں سے یوں تو روز بہلتے رہے ہیں ہم
کتنی حقیقتوں کو بدلتے رہے ہیں ہم
اپنے غبار میں بھی ہے وہ ذوق سرکشی
پامال ہوکے عرش پہ چلتے رہے ہیں ہم
سو سو طرح سے تجھ کو سنوارا ہے حسن دوست
سو سو طرح سے رنگ بدلتے رہے ہیں ہم
ہر دشت و در میں پھول کھلانے کے واسطے
اکثر تو نوک خار پہ چلتے رہے ہیں ہم
آئین پاسداریٔ صحرا نہ چھٹ سکا
وضع جنوں اگرچہ بدلتے رہے ہیں ہم
ساقی نہ ملتفت ہو تو پینا حرام ہے
پیاسے بھی میکدے سے نکلتے رہے ہیں ہم
کوئی خلیل جس کو نہ گلزار کر سکا
تیرے لیے اس آگ پہ چلتے رہے ہیں ہم
کیا جانے کب وہ صبح بہاراں ہو جلوہ گر
دور خزاں میں جس سے بہلتے رہے ہیں ہم
پرسان حال کب ہوئی وہ چشم بے نیاز
جب بھی گرے ہیں خود ہی سنبھلتے رہے ہیں ہم
ساحل کی عشرتوں کو خبر بھی نہ ہو سکی
طوفان بن کے لاکھ مچلتے رہے ہیں ہم
تخئیل لالہ کار یہ کہتی ہے اے سرورؔ
کوئی زمیں ہو پھولتے پھلتے رہے ہیں ہم