خواب گروی رکھ دیے آنکھوں کا سودا کر دیا
خواب گروی رکھ دیے آنکھوں کا سودا کر دیا
قرض دل کیا قرض جاں بھی آج چکتا کر دیا
غیر کو الزام کیوں دیں دوست سے شکوہ نہیں
اپنے ہی ہاتھوں کیا جو کچھ بھی جیسا کر دیا
کچھ خبر بھی ہو نہ پائی اس دیار عشق میں
کون یوسف ہو گیا کس کو زلیخا کر دیا
دل کے دروازے پہ یادیں شور جب بننے لگیں
دھڑکنوں کا نام دے کر بوجھ ہلکا کر دیا
کتنے اچھے لوگ تھے کیا رونقیں تھیں ان کے ساتھ
جن کی رخصت نے ہمارا شہر سونا کر دیا
اپنے پیاروں کو بچایا درد کی ہر موج سے
آنکھ میں سیلاب روکا دل کو دریا کر دیا
پھول، پودے، پیڑ، بچے گھر کا آنگن اور تم
خواہشوں کے نام پر ان سب کو یکجا کر دیا
غم نہیں لا حاصلی کا عشق کا حاصل ہے یہ
اے حساب زندگی تجھ کو تو پورا کر دیا
ہجر سے ہجرت تلک ہر دکھ سے سمجھوتا کیا
بھیڑ میں رہ کے بھی میں نے خود کو تنہا کر دیا
یہ زمیں حسرتؔ کی ہے اس پر قدم رکھا تو پھر
اتنی جرأت ہو گئی عرض تمنا کر دیا