خواب سراب

اب جو سوچیں بھی تو خوف آتا ہے
کس قدر خواب تھے جو خواب رہے
کس قدر نقش تھے جو نقش سر آب رہے
کس قدر لوگ تھے جو
دل کی دہلیز پہ دستک کی طرح رہتے تھے اور نایاب رہے
کس قدر رنگ تھے جو
بند گلیوں کے خم و پیچ میں چکراتے رہے
اپنے ہونے کی تب و تاب میں لہراتے رہے
پر کبھی آپ سے باہر نہ ہوئے
پھول کے ہاتھ میں ظاہر نہ ہوئے
دل کے گرداب میں ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح ہمہ تن رقص رہے
خوں بے نام ستاروں کی طرح عکس در عکس رہے
کیسے آدرش تھے جن کے سائے
سنسناتے ہوئے تیروں کی طرح چلتے تھے
ہست اور نیست کے مابین عجب رشتہ تھا
روح کی آگ بھڑکتی تو بدن جلتے تھے
وہ شب و روز تھے کیا
جب کسی خواہش بیدار کی طغیانی میں
وقت کی قید سے لمحات نکل جاتے تھے
خوں میں جب بھی سلگتا تھا ارادہ کوئی
آہنی طوق تمازت سے پگھل جاتے تھے
۲
آنکھ کے دشت میں اب لاکھ الاؤ دیکھیں
روح کی برف پگھلتی ہی نہیں
اب وہ آدرش کبھی
وقت کی ریت سے جھانکیں بھی تو یوں جھانکتے ہیں
جس طرح ٹوٹتا تارا کوئی
ایک لمحے کے لئے کوند کے چھپ جاتا ہے
کس قدر خواب تھے جو خواب رہے
اب جو سوچیں بھی تو خوف آتا ہے