خواب دیکھے تھے سہانے کتنے

خواب دیکھے تھے سہانے کتنے
جاگ اٹھے درد پرانے کتنے


ایک جلوے کی فراوانی سے
بن گئے آئنہ خانے کتنے


چال سے حال کی لاتے ہیں خبر
لوگ ہوتے ہیں سیانے کتنے


بوجھ کر بھی نہ بتاؤں تجھ کو
تیری مٹھی میں ہیں دانے کتنے


بے ارادہ جو ہوئے اشک رواں
لٹ گئے غم کے خزانے کتنے


تم ذرا روٹھ کے دیکھو تو سہی
لوگ آتے ہیں منانے کتنے


ہم نے صرف ایک تبسم کے لیے
زخم کھائے ہیں نہ جانے کتنے


ڈوب مرنے کا نہیں کوئی جواز
زندہ رہنے کے بہانے کتنے


سرد مہری سے تری محفل میں
جل بجھے لوگ نہ جانے کتنے


یاد ماضی سے سمٹ آئے ہیں
ایک لمحے میں زمانے کتنے


اک نظر دیکھا تھا اس نے ساحرؔ
گڑھ لیے دل نے فسانے کتنے