خون جب اشک میں ڈھلتا ہے غزل ہوتی ہے
خون جب اشک میں ڈھلتا ہے غزل ہوتی ہے
جب بھی دل رنگ بدلتا ہے غزل ہوتی ہے
تیرے اخلاص ستم ہی کا اسے فیض کہیں
منجمد درد پگھلتا ہے غزل ہوتی ہے
دل کو گرماتی ہے اشکوں کے ستاروں کی کرن
جب دیا شام کا جلتا ہے غزل ہوتی ہے
شعر ہوتا ہے شفق میں جو حنا رچتی ہے
لالہ جب خون اگلتا ہے غزل ہوتی ہے
خشک سوتوں کو جگاتے ہیں پیمبر کے قدم
ریت سے چشمہ ابلتا ہے غزل ہوتی ہے
اپنے سینے کے منا میں بھی تہ خنجر عشق
جب کوئی فدیہ بدلتا ہے غزل ہوتی ہے
فکر آ جاتی ہے ترسیل کے سورج کے تلے
جب کوئی سایہ نکلتا ہے غزل ہوتی ہے
دعوت پرسش احوال ہے یاروں سے کہو
دریا جب آنکھوں کا چڑھتا ہے غزل ہوتی ہے
جذبہ و فکر کے خاموش سمندر کے تلے
جب بھی طوفان مچلتا ہے غزل ہوتی ہے
مہرباں ہوتا ہے جب جان محبت طرزیؔ
دل بیمار سنبھلتا ہے غزل ہوتی ہے