خوشی سے اپنا گھر آباد کر کے
خوشی سے اپنا گھر آباد کر کے
بہت روئیں گے تم کو یاد کر کے
خیال و خواب بھی ہیں سر جھکائے
غلامی بخش دی آزاد کر کے
جو کہنے کے لیے ہی آبرو تھی
وہ عزت بھی گئی فریاد کر کے
پرندے سر پہ گھر رکھے ہوئے ہیں
مجھے چھوڑیں گے یہ صیاد کر کے
یہاں ویسے بھی کیا آباد رہتا
یہ دھڑکا تو گیا برباد کر کے
کہاں ہمدردیوں کی داد ملتی
بہت اچھے رہے بیداد کر کے
اسے بھی کیا پتہ تھا حال اپنا
تڑپتا ہے ستم ایجاد کر کے