خوشی نہ مل سکی آنکھیں مری پر آب رہیں
خوشی نہ مل سکی آنکھیں مری پر آب رہیں
خیال و خواب کی باتیں خیال و خواب رہیں
سحر ہوئی نہ مرے شہر آرزو میں کبھی
کہ مہر حسن کی کرنیں پس نقاب رہیں
انہی کے دم سے ہے قائم وقار سجدۂ شکر
وہ لوگ جن کی سدا قسمتیں خراب رہیں
کسی نے بھی در احساس اپنا وا نہ کیا
دکھے دلوں کی صدائیں نہ کامیاب رہیں
سکوں سے رہتے ہیں کس طرح لوگ دنیا میں
مرے لیے تو یہ سانسیں بھی اک عذاب رہیں
رہ وفا میں نگاہوں سے ہو گئیں اوجھل
جو صورتیں مری آنکھوں کا انتخاب رہیں
بسے ہوئے ہیں مرے خواب جن میں اے عابدؔ
وہ بستیاں تو ہمیشہ ہی زیر آب رہیں