خوشامد

دل کی جس قدر بیماریاں ہیں ان میں سب سے زیادہ مہلک خوشامد کا اچھا لگنا ہے۔ جس وقت کہ انسان کے بدن میں یہ مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو وبائی ہوا کے اثر کو جلد قبول کر لیتا ہے تو اسی وقت انسان مرضِ مہلک میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے، جسطرح کہ خوش گلو گانے والے کا راگ اور خوش آیند باجے والے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے اسی طرح خوشامد بھی انسان کے دل کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔ اول اول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی خوشامد کرتے ہیں اور اپنی ہر ایک چیز کو اچھا سمجھتے ہیں اور آپ ہی آپ اپنی خوشامد کر کے اپنے دل کو خوش کرتے ہیں پھر رفتہ رفتہ اوروں کی خوشامد ہم میں اثر کرنے لگتی ہے۔


اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اول تو خود ہم کو اپنی محبت پیدا ہوتی ہے پھر یہی محبت ہم سے باغی ہو جاتی ہے اور ہمارے بیرونی دشمنوں سے جا ملتی ہے اور جو محبت و مہربانی ہم خود اپنے ساتھ کرتے ہیں وہ ہم خوشامدیوں کے ساتھ کرنے لگتے ہیں اور وہی ہماری محبت ہم کو یہ بتلاتی ہے کہ ان خوشامدیوں پر مہربانی کرنا نہایت حق اور انصاف ہے جو ہماری باتوں کو ایسا سمجھتے ہیں اور انکی ایسی قدر کرتے ہیں جبکہ ہمارا دل ایسا نرم ہو جاتا ہے اور اسی قسم کے پھسلاوے اور فریب میں آ جاتا ہے تو ہماری عقل خوشامدیوں کے عقل و فریب سے اندھی ہو جاتی ہے اور وہ مکر و فریب ہماری طبیعت پر بالکل غالب آ جاتا ہے۔ لیکن اگر ہر شخص کو یہ بات معلوم ہو جاوے کہ خوشامد کا شوق کیسے نالائق اور کمینے سببوں سے پیدا ہوتا ہے تو یقینی خوشامد کی خواہش کرنے والا شخص بھی ویسا ہی نالائق اور کمینہ متصور ہونے لگے گا۔ جبکہ ہم کو کسی ایسے وصف کا شوق پیدا ہوتا ہے جو ہم میں نہیں ہے یا ہم ایسا بننا چاہتے ہیں جیسے کہ در حقیقت ہم نہیں ہیں، تب ہم اپنے تئیں خوشامدیوں کے حوالے کرتے ہیں جو اوروں کے اوصاف اور اوروں کی خوبیاں ہم میں لگانے لگتے ہیں۔ گو بسبب اس کمینہ شوق کے اس خوشامدی کی باتیں اچھی لگتی ہوں مگر در حقیقت وہ ہم کو ایسی ہی بد زیب ہیں جیسے کہ دوسرں کہ کپڑے جو ہمارے بدن پر کسی طرح ٹھیک نہیں (اس بات سے ہم اپنی حقیقت کو چھوڑ کر دوسرے کے اوصاف اپنے میں سمجھنے لگیں، یہ بات کہیں عمدہ ہے کہ ہم اپنی حقیقت کو درست کریں اور سچ مچ وہ اوصاف خود اپنے میں پیدا کریں، اور بعوض جھوٹی نقل بننے کے خود ایک اچھی اصل ہو جاویں ) کیونکہ ہر قسم کی طبیعتیں جو انسان رکھتے ہیں اپنے اپنے موقع پر مفید ہو سکتی ہیں۔ ایک تیز مزاج اور چست چالاک آدمی اپنے موقع پر ایسا ہی مفید ہوتا ہے جیسے کہ ایک رونی صورت کا چپ چاپ آدمی اپنے موقع پر۔


خودی جو انسان کو برباد کرنے کی چیز ہے جب چپ چاپ سوئی ہوئی ہوتی ہے تو خوشامد اس کو جگاتی اور ابھارتی ہے اور جس چیز کی خوشامد کی جاتی ہے اس میں چھچھورے پن کی کافی لیاقت پیدا کر دیتی ہے، مگر یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہیئے کہ جسطرح خوشامد ایک بد تر چیز ہے اسی طرح مناسب اور سچی تعریف کرنا نہایت عمدہ اور بہت ہی خوب چیز ہے۔ جسطرح کے لائق شاعر دوسروں کی تعریف کرتے ہیں کہ ان اشعار سے ان لوگوں کا نام باقی رہتا ہے جنکی وہ تعریف کرتے ہیں اور شاعری کی خوبی سے خود ان شاعروں کا نام بھی دنیا میں باقی رہتا ہے۔ دونوں شخص ہوتے ہیں، ایک اپنی لیاقت کے سبب سے اور دوسرا اس لیاقت کو تمیز کرنے کے سبب سے۔ مگر لیاقت شاعری کی یہ ہے کہ وہ نہایت بڑے استاد مصور کی مانند ہو کہ وہ اصل صورت اور رنگ اور خال و خط کو بھی قائم رکھتا ہے اور پھر بھی تصویر ایسی بناتا ہے کہ خوش نما معلوم ہو۔ ایشیا کے شاعروں میں ایک بڑا نقص یہی ہے کہ وہ اس بات کا خیال نہیں رکھتے بلکہ جسکی تعریف کرتے ہیں اسکے اوصاف ایسے جھوٹے اور نا ممکن بیان کرتے ہیں جن کہ سبب سے وہ تعریف، تعریف نہیں رہتی بلکہ فرضی خیالات ہو جاتے ہیں۔ ناموری کی مثال نہایت عمدہ خوشبو کی ہے، جب ہوشیاری اور سچائی سے ہماری واجب تعریف ہوتی ہے تو اسکا ویسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے عمدہ خوشبو کا مگر جب کسی کمزور دماغ میں زبردستی سے وہ خوشبو ٹھونس دی جاتی ہے تو ایک تیز بو کی مانند دماغ کو پریشان کر دیتی ہے۔ فیاض آدمی کو بد نامی اور نیک نامی کا زیادہ خیال ہوتا ہے اور عالی ہمت طبیعت کو مناسب عزت اور تعریف سے ایسی ہی تقویت ہوتی ہے جیسے کہ غفلت اور حقارت سے پست ہمتی ہوتی ہے۔ جو لوگ کہ عوام کے درجہ سے اوپر ہیں انہیں لوگوں پر اسکا زیادہ اثر ہوتا ہے جیسے کہ تھرما میٹر میں وہی حصہ موسم کا زیادہ اثر قبول کرتا ہے جو صاف اور سب سے اوپر ہوتا ہے۔