خوش شناسی کا صلہ کرب کا صحرا ہوں میں
خوش شناسی کا صلہ کرب کا صحرا ہوں میں
کون پہچانے کہ اک دشت تمنا ہوں میں
سرد پانی کی زباں چاٹتی رہتی ہے مجھے
کہر میں ڈوبا ہوا کوئی جزیرہ ہوں میں
اپنی ویران سی آنکھوں کو سجا لو مجھ سے
پھر نہ ہاتھ آؤں گا اڑتا ہوں سپنا ہوں میں
بھول جاؤ گے مجھے تم بھی سحر ہونے تک
آخر شب کا کوئی ٹوٹتا لمحہ ہوں میں
ٹوٹا پھوٹا ہی سہی پھر بھی کشش رکھتا ہوں
مجھ سے محظوظ تو ہو لو کہ کھلونا ہوں میں
ایک دشنام ہے یہ طرز تعارف مجھ کو
یارو اس شہر کا دیرینہ شناسا ہوں میں