کھلی جب آنکھ تو دیکھا کہ تھا بازار کا حلقہ

کھلی جب آنکھ تو دیکھا کہ تھا بازار کا حلقہ
خدا معلوم کب ٹوٹا مرے پندار کا حلقہ


طلوع شام بھی مجھ کو نوید صبح فردا ہے
کہیں چمکے ہلال ابروئے خم دار کا حلقہ


مرا خون تمنا ہے حنا بند کف قاتل
جنون شوق کام آیا فراز دار کا حلقہ


دل بت آشنا کچھ اس طرح سوئے حرم آیا
برہمن جیسے نکلے توڑ کر زنار کا حلقہ


طلب کی راہ میں پائے انا سے بارہا الجھا
کبھی انکار کا حلقہ کبھی اقرار کا حلقہ


یہ کوئے غم بدل جائے نہ اب دشت تمنا سے
جنوں انگیز ہے زنداں کی ہر دیوار کا حلقہ


ہر اک محفل میں جانا ہر کسی سے بات کر لینا
گوارا کر نہیں سکتا مرے معیار کا حلقہ


لہو قدموں سے یوں پھوٹا کہ زنجیریں لہک اٹھیں
منور ہو گیا زندان تنگ و تار کا حلقہ


غم امروز نے پیماں کیا ہے عشق فردا سے
کبھی تو ہوگا شانہ گیر زلف یار کا حلقہ


کوئی آساں نہ تھا لیکن بہت مشکل نہ تھا طرزیؔ
مری ضرب نفس سے کھل گیا اسرار کا حلقہ