کھلی جب آنکھ تو دیکھا کہ دنیا سر پہ رکھی ہے

کھلی جب آنکھ تو دیکھا کہ دنیا سر پہ رکھی ہے
خمار ہوش میں سمجھے تھے ہم ٹھوکر پہ رکھی ہے


تعارف کے تلے پہچان غائب ہو گئی اپنی
عجب جادو کی ٹوپی ہم نے اپنے سر پہ رکھی ہے


مرے ہونے کا یہ تصدیق نامہ کس نے لکھا ہے
گواہی کس کی میری ذات کے محضر پہ رکھی ہے


اچانک گر وہ بے آمد ہی کمرے میں بر آمد ہو
توجہ ہم نے تو مرکوز بام و در پہ رکھی ہے


عجب کولاژ ہے قسمت کا محرومی کا محنت کا
ستارے چھت پہ رکھے ہیں تھکن بستر پہ رکھی ہے


متاع حق عقیدہ ایک سجدے میں چرا لایا
خرد جویا تھی کس دہلیز پر کس در پہ رکھی ہے


نہیں قول و قرار جان و دل کافی نہ تھے اس کو
قسم اس شوخ نے آخر ہمارے سر پہ رکھی ہے


حساب نیک و بد جو بھی ہو ہم اتنا سمجھتے ہیں
بنائے حشر درد دل پہ چشم تر پہ رکھی ہے