خود وہ آتے اگر یقیں ہوتا

خود وہ آتے اگر یقیں ہوتا
درد پرسش طلب نہیں ہوتا


دل تو کیا جان تک فدا کرتے
تم سا لیکن کوئی حسیں ہوتا


سجدہ کرتے ہزار بار مگر
کوئی در لائق جبیں ہوتا


اس میں شامل جو ہوتا ذکر ان کا
یہ فسانہ بہت حسیں ہوتا


تیرے وعدوں پہ بھی یقیں کرتے
ہم کو دل پر اگر یقیں ہوتا


دل پہ جب تک نہ اس کے چوٹ آئے
آدمی کام کا نہیں ہوتا


بادہ مرغوب دل ہے تلخی سے
زہر ہوتا جو انگبیں ہوتا


ہستیٔ بے ثبات کا ساحرؔ
نقش کوئی تو دل نشیں ہوتا