خود حجابوں سا خود جمال سا تھا
خود حجابوں سا خود جمال سا تھا
دل کا عالم بھی بے مثال سا تھا
عکس میرا بھی آئنوں میں نہیں
وہ بھی کیفیت خیال سا تھا
دشت میں سامنے تھا خیمۂ گل
دوریوں میں عجب کمال سا تھا
بے سبب تو نہیں تھا آنکھوں میں
ایک موسم کہ لا زوال سا تھا
خوف اندھیروں کا ڈر اجالوں سے
سانحہ تھا تو حسب حال سا تھا
کیا قیامت ہے حجلۂ جاں میں
اس کے ہوتے ہوئے ملال سا تھا
جس کی جانب اداؔ نظر نہ اٹھی
حال اس کا بھی میرے حال سا تھا