کھولا اخبار کا جو دروازہ

کھولا اخبار کا جو دروازہ
لگ گیا خون ہاتھ پر تازہ


آہٹیں ڈھونڈھتی ہیں قدموں کو
دستکیں ڈھونڈھتی ہیں دروازہ


خط میں لکھی ہوئی تھی کچھ باتیں
کچھ کا ہم نے لگایا اندازہ


سانس منزل سے قبل پھول گیا
تیز چلنے کا ہے یہ خمیازہ