خزاں سے پیشتر سارا چمن برباد ہوتا ہے

خزاں سے پیشتر سارا چمن برباد ہوتا ہے
غضب ہوتا ہے جب خود باغباں صیاد ہوتا ہے


تجھے اس پر گمان‌ نغمۂ صیاد ہوتا ہے
قفس میں نالہ کش مرغ گلستاں زاد ہوتا ہے


خوشی کے بعد اک تو ہی نہیں ہے مبتلائے غم
یوں ہی اکثر جہاں میں اے دل ناشاد، ہوتا ہے


روا رکھتا ہے وہ بیداد پہلے اپنی فطرت پر
جو انساں دوسرے پر مائل بیداد ہوتا ہے


جو کرتا ہے نثار نوع انساں اپنی ہستی کو
وہ انساں افتخار‌ عالم ایجاد ہوتا ہے


مرے اشعار کی توصیف ہوتی ہے مرے ہوتے
نہیں معلوم میرے بعد کیا ارشاد ہوتا ہے


نہ کر محرومؔ تو فکر سخن اب فکر عقبیٰ کر
نوا پرواز بزم شعر میں آزاد ہوتا ہے