خزاں نے اجاڑے چمن کیسے کیسے

خزاں نے اجاڑے چمن کیسے کیسے
ہوئے خاک سرو و سمن کیسے کیسے


ملے خاک میں دست جور خزاں سے
گل و لالہ و نسترن کیسے کیسے


دکھائے ہیں سودائے زلف بتاں نے
ہمیں بھی خطا و ختن کیسے کیسے


ترے ہجر میں مل گئے ہم کو مونس
غم و رنج و درد و محن کیسے کیسے


کبھی ہو کسی کے کبھی ہو کسی کے
بدلتے ہو صاحب چلن کیسے کیسے


مرے بت سے بھی کوئی ملتا ہے دیکھوں
ترے بت ہیں اے برہمن کیسے کیسے


نہ محرومؔ تو طبع موزوں پہ اترا
ہیں موجود اہل سخن کیسے کیسے