خزاں کے خوف سے کلیوں کو لرزاں دیکھ لیتا ہوں

خزاں کے خوف سے کلیوں کو لرزاں دیکھ لیتا ہوں
ہجوم رنگ و بو میں غم کے طوفاں دیکھ لیتا ہوں


بھلا بیٹھا ہوں یاد تلخ ایام گزشتہ کی
مگر اب بھی کبھی خواب پریشاں دیکھ لیتا ہوں


تڑپ اٹھتا ہوں غم سے سینہ چاکان گلستاں کے
گلوں کو دیکھ کر اپنا گریباں دیکھ لیتا ہوں


گلوں کی سینہ چاکی بلبلوں کا درد بیتابی
میں ہر پردے میں تیرے جور پنہاں دیکھ لیتا ہوں


در مے خانہ وا ہوتا ہے واعظ میں ابھی آیا
ذرا پی لوں تو بحث کفر و ایماں دیکھ لیتا ہوں


جو غرقابی مقدر ہے تو ارماں ہی نکل جائے
ذرا ہٹ ناخدا میں زور طوفاں دیکھ لیتا ہوں


مری خودداریاں جینے نہیں دیتیں مجھے قیصرؔ
مگر بندہ ہوں اس کا جس کو انساں دیکھ لیتا ہوں