کھلتا ہوا گلاب ہے 26 جنوری
لمحے نئے ہیں سال نیا آرزو نئی
ہمت نہیں ہے راہ نئی جستجو نئی
لگتی ہے ہم کو آج ہر اک گفتگو نئی
اجلا سا آفتاب ہے چھبیس جنوری
کھلتا ہوا گلاب ہے چھبیس جنوری
جس دن بنا تھا ملک میں آئین خوش گوار
اپنے چمن میں آئی تھی جس دن نئی بہار
جو دن ہے اپنی عظمت و رفعت کی یادگار
اس دن کا ایک باب ہے چھبیس جنوری
کھلتا ہوا گلاب ہے چھبیس جنوری
ہر راہ رو کی لال قلعے پر نظر ہے آج
اونچا جہاں میں اپنے ترنگے کا سر ہے آج
آزادیٔ وطن کی خوشی اوج پر ہے آج
روشن ہے کامیاب ہے چھبیس جنوری
کھلتا ہوا گلاب ہے چھبیس جنوری
دل میں بلند حوصلے رکھتے ہیں نوجواں
سوراج مل گیا ہے تو بچے ہیں شادماں
مسرور زندگی ہے ارادے ہیں کامراں
اک جشن آب و تاب ہے چھبیس جنوری
کھلتا ہوا گلاب ہے چھبیس جنوری