کھلندڑا

امتحاں کی رات اور میں جھڑکیاں سنتا رہوں
ہر عنایت ہر کرم کو مسکرا کر میں سہوں
ہوک سی دل میں اٹھے اور کچھ نہ میں پھر بھی کہوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
بن کے رٹو پاس کر جاؤں مری فطرت نہیں
امتحاں میں دوستوں سے لوں مدد عادت نہیں
مہرباں ہوں ماسٹر ایسی مری قسمت نہیں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
یہ روپہلی رات اور باغوں میں آموں کی بہار
کیا کتابوں میں لگے دل اور کیا آئے قرار
ہائے لیکن اس گھڑی کوئی نہیں راہ فرار
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
دل یہ کہتا ہے کتابیں چھوڑ اور ڈنڈا اٹھا
دوستوں کے ساتھ جا کر باغ میں امرود کھا
کچھ اگر مالی کہے تو قہقہے مل کر لگا
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
لے کے بستہ ہاتھ میں اسکول جانا ہے غضب
ماسٹر صاحب سے مولیٰ بخش کھانا ہے غضب
کالے تختے پر سوالوں کا بنانا ہے غضب
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
جی میں آتا ہے کہ اب اسکول جانا چھوڑ دوں
میں ہی بڑھ کر دوستو اب وقت کا رخ موڑ دوں
یہ نہیں ممکن تو پھر میں اپنا ہی سر توڑ دوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں