کھڑکیاں کھولیں تو مجھ کو آج اندازہ ہوا

کھڑکیاں کھولیں تو مجھ کو آج اندازہ ہوا
میرا ہی سایہ تھا وہ دیوار سے لپٹا ہوا


آج کی شب بھی پلٹ آئے بنا دستک دئے
سو رہا تھا گھر میں کوئی رات کا جاگا ہوا


اس گلی کے موڑ پہ بیٹھا ہوں کتنی دیر سے
جس طرح کوئی مسافر ہوں تھکا ہارا ہوا


جس طرف بھی اب اڑا لے جائیں مجھ کو آندھیاں
ایک پتہ ہوں ہوا کے دوش پہ رکھا ہوا


اور بھی کچھ دور آ پہنچے ہم اپنے شہر سے
لگ رہا تھا راستہ جانا ہوا بوجھا ہوا


سو گیا ہے میرے سینے سے لگا کر اپنا سر
اک کھلونے کے لیے بچہ کوئی روتا ہوا


بے تعلق سا پڑا تھا موسموں کے سامنے
سبز پتہ کوئی اپنی شاخ سے ٹوٹا ہوا


دھند میں لپٹی ہوئی تھیں اپنی تحریریں سبھی
پڑھ نہیں پائے ظفرؔ ہم ہاتھ کا لکھا ہوا