خیالوں کے سوئیٹر
گھٹائیں آج بڑھتی جا رہی ہیں
دکھانے پربتوں کو رعب اپنا
ہواؤں کو بھی ساتھ اپنے لیا ہے
کھڑے ہیں تان کر سینے کو پربت
ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے
کہ اب گھیراؤ پورا ہو گیا ہے
گرجنے لگ گئی ہے کالی بدلی
سنہرے پروتوں کے رنگ پھیکے پڑھ گئے ہیں
مٹ میلی ہوئی جاتی ہے اجلی اجلی پنڈر
وہیں کچھ دور پلی بستیوں میں
لال پیلے نیلے اجالے ہو گئے ہیں
کہ جیسے کالی کالی چنیوں پر
کوئی ستاروں کی کڑھائی کر گیا ہو
دریچے سے میں بیٹھا دیکھتا ہوں
کہ دنیا شانت ہوتی جا رہی ہے
کہ جیسے بدھ کا وردان ہو یہ
اور میں اپنے ذہن میں خیالوں کے سوئیٹر بن رہا ہوں