خیال و خواب کی اب رہ گزر میں رہتا ہے

خیال و خواب کی اب رہ گزر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے اکثر سفر میں رہتا ہے


کسی کا دیکھنا مڑ کر وہ چشم تر سے مجھے
ہمیشہ اب وہی منظر نظر میں رہتا ہے


تمام راستے مڑ کر یہیں پہنچتے ہیں
وہ اس خیال سے اب اپنے گھر میں رہتا ہے


مسرتوں کے کنارے تو ڈوب جاتے ہیں
سفینہ دل کا غموں کے بھنور میں رہتا ہے


کہاں ہے کیسے بتائیں یہی سمجھ لیجے
شکیلؔ اب تو کسی چشم تر میں رہتا ہے