خیال جن کا ہمیں روز و شب ستاتا ہے
خیال جن کا ہمیں روز و شب ستاتا ہے
کبھی انہیں بھی ہمارا خیال آتا ہے
تمہارا عشق جسے خاک میں ملاتا ہے
اسی کی خاک سے پھر پھول بھی کھلاتا ہے
ڈھلے گی رات تو پھیلے گا نور بھی اس کا
چراغ اپنا سر شام جھلملاتا ہے
نہ طے ہوئی تری شمع جمال سے بھی جو راہ
وہیں پہ میرا جنوں راستہ دکھاتا ہے
نہ جانے شوق کو عادت ہے کیوں بہکنے کی
ترا حجاب تو بے شک ادب سکھاتا ہے
کہاں بجھائے سے بجھتے ہیں عشق کے شعلے
چراغ یوں تو جو جلتا ہے بجھ بھی جاتا ہے
یہ باد راہ گزر در خور چمن نہ سہی
غبار کا بھی ٹھکانا نکل ہی آتا ہے
جنوں کی چال پہ ٹھٹکی نہ وہ نظر تنہا
یہاں زمانہ بھی قدموں میں لوٹ جاتا ہے
ہے تیرے غم کی غم روزگار سے سازش
کہاں کہاں دل دیوانہ کام آتا ہے
سرورؔ جنس وفا بیچتے نہیں پھرتے
جگر کے داغ دکھانا تو سب کو آتا ہے