خیال خاطر احباب
سلام میرے رفیقوں کو ہم نشینوں کو
سپاٹ چہروں کو بے مہر و لطف سینوں کو
کوئی حبیب مسرت نہ کوئی مونس غم
نہ دل میں جوش نہ یارائے درد سینوں کو
کوئی فروغ نہ کوئی نمو کہ یاروں نے
رکھا ہے کر کے مسطح تمام زینوں کو
ملا نہ حیف! غل آرائی کا مزاج کبھی
مرے خلوص کے ''خرمن کے خوشہ چینوں کو''
فلک نے زینت نسیاں بنا کے چھوڑ دیا
رسوم لطف کو دل جوئی کے قرینوں کو
غرض کی تند ہواؤں نے کر دیا بنجر
وفا کی کشت کو ایثار کی زمینوں کو
شکستہ کر دیا بدلی نظر کے طوفان نے
خود اعتمادی کے ڈھالے ہوئے سفینوں کو
نظر میں کج نگہی لب پہ مصلحت گوئی
خطوط رخ نے ابھارا ہے دل کے کینوں کو
خلاف وضع ہو بھولے سے گر یہ شعر انیسؔ
سنائے سازؔ کوئی میرے ہم نشینوں کو
''خیال خاطر احباب چاہئے ہر دم!
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو!