خیال اندر ہی اندر مر گیا ہے
خیال اندر ہی اندر مر گیا ہے
ترا غم مجھ کو پاگل کر گیا ہے
خوشی آنکھوں میں آنسو کھینچتی ہے
سمجھ لو دل دکھوں سے بھر گیا ہے
طلب اس کو نہ ہوگی بھوک کی اب
مری جانب سے لقمہ تر گیا ہے
تباہی میں گئیں دیواریں گھر کی
نہ کھڑکی ہی نہ کوئی در گیا ہے
پڑی ہے گہرے دکھ کی ضرب دل پر
مکمل جس سے درد سر گیا ہے
پلٹ آنا نہ ہو ممکن جہاں سے
مسافر اس مسافت پر گیا ہے
میں اس کو چھوڑ دوں سوچا نہیں ہے
وہ ایسا سوچ کر ہی ڈر گیا ہے
وہ آئے گا تو اس سے بات ہوگی
جو اب کے چھٹیوں میں گھر گیا ہے