خوف آتا ہی نہیں اب تو مجھے پانی سے
خوف آتا ہی نہیں اب تو مجھے پانی سے
اس لیے جھیل میں اتری ہوں میں آسانی سے
کون تھا کس کی جدائی کا تجھے صدمہ ہے
آج پوچھوں گی یہی شہر کی ویرانی سے
تو بھی رہتا ہے مرے سامنے شرمندہ سا
میں بھی نادم ہوں تری روز کی نادانی سے
موت بھی ڈوب کے ہونی ہے ہماری شاید
ڈر جو لگتا ہی نہیں ہے ہمیں طغیانی سے
خود نمائی کا اسے شوق ہے کتنا زیبیؔ
اپنی تصویر ہے بنوائی کسی مانی سے