ختم نبوت کیاہے اورتاریخ اسلام میں کتنے لوگوں نے نبوت کے دعوے کیے؟
خدائی فیصلوں میں تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔انسان جس خاتون کے بطن سے جنم لے اسکے بعددنیاکی کوئی عورت اس کی ماں نہیں بن سکتی،جس باپ کی نسل سے جنم لیاجائے پھراس کے بعد کوئی مرد انسان کا باپ نہیں بن سکتا۔جس ملک ،جس قوم ،جس نسل،جس خاندان اور جس سرزمین پر انسان آنکھیں کھولتاہے یہ خدائی فیصلے آخری ہوتے ہیںجن میں کوئی بھی تبدیلی ناممکنات عالم میں سے ہے۔اسی طرح اﷲتعالی نے انسان کی ہدایت کے لیے جو فیصلے کیے ہیں ان میں بھی تبدیلی ممکن نہیں ہوسکتی۔خالق کائنات نے انسانوں میں انبیاء علیھم السلام کاسلسلہ شروع کیا۔شیطان جیسے جیسے انسان کوگمراہ کرنے کے نت نئے طریقے اختیارکرتارہاویسے ویسے اﷲ تعالی انبیاء علیھم السلام کو دنیامیں بھیجتارہااورانسانوں کو سیدھی راہ دکھائی جاتی رہی۔پھرایک وقت آیاکہ شیطان کو گمراہی میں مہارت حاصل ہوگئی،جس کے بعد انسان کو بھی ہدایت کامکمل سامان فراہم کردیاگیا۔اب قیامت تک شیطان جن جن راستوں سے انسان کو گمراہ کرسکے گااور جن نت نئے حربوں کو آزماسکے گاان سب کاتوڑ قرآن وسنت میں محفوظ ہے۔ختم نبوت کایہی مطلب ہے کہ انسانی ہدایت کا سامان مکمل ہوچکاہے اور اب کوئی نبی نہیں آئے گا،کوئی رسول نہیں آئے گا،کوئی کتاب،کوئی شریعت اور وحی کے نزول کاسلسلہ بندہوچکاہے۔اگرکسی نے نبوت ورسالت اور شریعت و کتاب و وحی کے دعوے کیے تووہ کذاب ہوگااوراسکی پیروی کرنے والے امت مسلمہ سے خارج ہوں گے۔
ہر نبی اور ہر آسمانی کتاب نے اپنی امت کو اپنے بعد پیش آنے والے حالات کے بارے میں اطلاعات دی ہیں۔کتب آسمانی میں یہ اطلاعات بہت تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔گزشتہ مقدس کتب میں اگرچہ انسانوں نے اپنی طرف سے بہت سی تبدیلیاں کر دیں ،اپنی مرضی کی بہت سی نئی باتیں ڈال کر تو اپنی مرضی کے خلاف کی بہت سی باتیں نکال دیںلیکن اس کے باوجود بھی جہاں عقائد کی جلتی بجھتی حقیقتوں سے آج بھی گزشتہ صحائف کسی حد تک منور ہیں وہاں آخری نبی ﷺ اور قیامت کی پیشین گوئیاں بھی ان تمام کتب میں موجود ہے۔یہودونصاری نے بعثت نبوت اخری کے بعد ان نشانیوں کو مٹانے کی بہت کوشش کی لیکن پھر بھی بکثرت آثار اب بھی باقی ہیںاور علمائے امت مسلمہ نے انہیں تلاش کر کے عالم انسانیت کے سامنے پیش بھی کردیا ہے۔اسی طرح وہ بعد میں آنے والے حالات مستقبل قریب سے تعلق رکھتے ہوں یا مستقبل بعید سے متعلق ہوں ،ان کی جزوی تفصیلات ہر کتاب اور نبی نے پیش کی ہیںتاکہ امت کی راہنمائی ہر حال میں جاری رہے۔
گزشتہ کتب اور گزشتہ انبیاء علیھم السلام کی طرح آخری نبیﷺ نے اور آخری کتاب قرآن مجید نے بھی اپنے بعد آنے والے حالا ت کے بارے میں بارے میں امت مسلمہ کو بہت تفصیل سے بتایاہے۔نئے آنے والے حالات اچھے ہوں یا برے ہوں،وہ دور فتن سے تعلق رکھتے ہوں یاقیامت اور اورآخرت کی نشانیوں کی طور پر ظہور پزیر ہونے والے ہوں،وہ انسانوں کے رویوں سے متعلق ہوں یا آسمانی آفات و بلیات کی پیش آمدہ اطلاعات ہوں یا آنے والے حالا ت کے تجزیے،اسباب و نتائج ہوں یا ان کے اثرات ہوں اور یا امت میں آنے والی مقدس ہستیاں ہوں یا امت کے مقابلے میں آنے والے ظالم و جابر وقاہرافراد ہوں سب کی تفصیلات قرآن مجید میں اجمالاَََ اور کتب حدیث میں تفصیلاََ وارد ہوئی ہیں۔بعض محدثین نے تو ان حالات کے بیان کے لیے الگ ابواب باندھے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ سب حالات اور افراداہم تھے یا کسی نبی کی آمد کی اطلاع اہم تھی؟؟ظاہر ہے مذکورہ حالات تو ایمان کا حصہ نہیں ہیں لیکن اگر کسی نبی نے آنا ہوتا تو نبی تو ایمان کاحصہ ہی نہیں بلکہ ایمان کی بنیاد ہوتا ہے۔پس اگر کسی نبی نے آنا ہوتا اور مشیت ایزدی میں کسی نبی کی بعثت اگر باقی ہوتی تو قرآن و حدیث کے مندرجات اس نبی کی اطلاعات سے بھرے پڑے ہوتے۔یہ بات بہت بڑا دستاویزی ثبوت اور ناقابل انکار شہادت اور ناقابل تردید امرہے کہ چونکہ قرآن و حدیث میں ایسی کسی ہیشین گوئی کا ذکر نہیں ہے جس میں کسی نبی کی آمد کی اطلاع ہو اس لیے اب قیامت تک کسی نبی کی آمد قطعاََ نہیں ہوگی۔یہ ہو نہیں سکتا کہ ایمان و یقین جیسے نازک معاملے میں کوئی نبی اپنی امت کو یوں اندھیرے میں چھوڑ جائے۔قرآن مجید میں متعدد ایسے مقامات ہیں جہاں کسی آنے والے نبی کاذکر موجود ہوناچاہیے تھامثلاََسورۃ بقرہ کے آغازمیں ہی فرمایا وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ{۲:۴}ََ ترجمہ:’’اس پر ایمان رکھتے ہیں جوآپﷺ پر نازل کیاگیااور آپﷺ سے پہلے نازل کیاگیااوریوم آخرۃ پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔اگرآپﷺ کے بعد کوئی کتاب،کوئی شریعت،کوئی نبوت و رسالت یا وحی کاکوئی سلسلہ باقی ہوتاتواس مقام پر ضرور اس کاذکرکیاجاتا۔بلکہ آپ ﷺ کی نبوت کے ذکرکے بعد ملحقاََآخرۃ کاذکر کیاگیا یعنی اس نبی محترمﷺکے بعد آسمان سے صرف آخرۃ کی آمد ہی ہوگی۔
محسن انسانیت خاتم النبیین ﷺ نے انسانیت کے جملہ معیارات اخلاق کو مکمل کیا ہے ،آج کئی صدیاں گزرنے کے باوجودا ن معیارات میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکا۔خاتم النبیینﷺنے معاشرت کو مساوات کا درس دیا،نماز جیسے پنج وقتہ عمل میں اس مساوات کو قائم کیا ،امیر،غریب،عالم ،جاہل اور عوام حکمران سب کو تاقیامت ایک صف میں کھڑا کردیااور کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ پہلی صف میں جماعت شروع ہو چکنے کے باوجود اپنے لیے جگہ کو خالی رکھوائے بلکہ پہلے آؤپہلے پاؤکی بنیاد پر نماز میں جگہ حاصل کرنے کا اصول دیا ۔اسی طرح حج میں بھی مساوات قائم کی سب لوگ ایک ہی لباس پہنے ایک ہی کمرے کے گرد ایک ہی رخ میں چکر لگاتے ہوئے اور ایک ہی کلمہ زبان سے اداکرتے ہوئے حج کرتے ہیں۔آج صدیاں گزر گئیں کسی کتنے ہی نئے نظام ہائے فکروعمل آئے،کتنے ہی فلسفہ ہائے اخلاق آئے اور تہذیب و تمدن نے کتنی ہی ترقی کر لی لیکن انسانی معاشرے کوخاتم النبیینﷺکے درس مساوات سے بڑھ کر کوئی درس میسرنہ آ سکا۔آپﷺنے معاشرے کے لیے مساوات کے درس اخلاق کومکمل کردیاجس میں آج تک اضافہ ممکن نہ ہوسکا۔
خاتم النبیینﷺنے انسانی معیشیت کوسود کی ممانعت ،تقسیم دولت اور حقوق کی ادائگی کا درس دیا اور یہ درس دیا کہ ’’مزدورکی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردو‘‘اسکے دو مطلب ہیں ،ایک تو وہی جو سمجھ آگیایعنی ادائگی بروقت ہو جانی چاہیے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مزدوربھی مزدوری کرتے ہوئے اپنا پسینہ نکالے،یعنی اپنے کام کاحق تواداکرے ۔آج صدیاں بیت گئیں ،ماضی قریب میں کیمونزم،سوشلزم یااشتراکیت کے نام سے بہت بڑے بڑے معاشی انقلابات آئے جنہوں نے دنیا کے جغراافیے سمیت عالمی معیشیت کو نیچے سے اوپر تک ہلامارا،انکی پشت پر تاریخی شہرت کے حامل اہل فکرودانش کی کاوشیں کارفرماتھیں اور نسلوں کے استحصال کے بعد بہت بڑی بڑی افکار پیش کی گئیں جن کو بنیاد بناکر لاکھوں انسانوں کے خون کی قیمت پر ان معاشی نظاموں کونافذ کیا گیا لیکن ان سب کے باوجودبھی وہ حقوق کی ادائگی سے بڑھ کر کوئی نیادرس انسانوں کے سامنے پیش نہ کر سکے ،جب کہ یہی درس صدیوں پہلے خاتم النبیینﷺاپنی معاشی تعلیمات میں پیش کر چکے تھے۔آج کی تہذیب نے راتوں کودنوں سے زیادہ روشن کردیالیکن معیشیت کے میدان میںسوائے اندھیروں کے کچھ نہ دے سکی اورمحسن انسانیتﷺ جن معاشی اخلاقی حقوق و اعلی معاشی معیارات کاتعین فرماگئے ان میں بال برابربھی اضافہ ممکن نہ ہوسکا۔
خاتم النبیینﷺنے مذہب کوانسانیت کادرس دیا،جنگی قیدیوں کو حق زندگی دیا،غلاموں کی آزادی کو رواج دیا،دشمنوں کو معاف کیا،قاتلوں پر انعامات کی بارش کی،رنگ،نسل ،زبان اور علاقے کی بجائے اخوت کو مذہب کا وسیع البنییاد پلیٹ فارم عطاکیا،خدمت کو انسانیت کی معراج قراردیا اور صلہ رحمی کے احکامات جاری کیے۔ہندومت آج بھی حقوق العبادکا استحصال کرتاہے،عیسائیت نے حقوق اﷲ میں غلو سے کام لیا،یہودیوں نے محض حقوق النفس ہی اداکیے ،دنیامیں کم و بیش پچیس ہزارمذاہب پر انسانوں کے گروہ عمل پیرا ہیں لیکن تمام مذاہب افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ان مذاہب سے تنگ آکر یورپ نے ’’سیکولرازم‘‘کے نام پر مذہب سے روگردانی اختیارکرنا چاہی اورانسانیت کے نام سے اپنی پہچان بنانے کی کوشش کی اور اسی انسانیت کے ہی نئے معیار قائم کیے ان پر عمل پیرا بھی ہونے کی کوشش کرتے رہے اسکا حق اداکیا یا نہیں یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن تب بھی انسانیت سے بڑھ کرکوئی نیادرس تو انہوں نے بھی پیش نہ کیا اور اسی درس کو خاتم النبیینﷺصدیاں پہلے پیش کر چکے تھے۔سیکولرازم نے انسانیت کے نام پر انسانیت کااستحصال کیالیکن انسانیت کی کوئی خدمت بجانہ لاسکی وہ انبیاء علیھم السلام ہی تھے جو بغیرکسی معاوضہ کے خدمت انسانیت کے اعلی ترین منصب پر فائزہوئے اور آخری نبیﷺ نے تواس معیار انسانیت کو اس کے بام عروج تک پہنچادیااور انﷺ کے بعد اس میں کوئی اضافہ ممکن ہی نہ ہوسکااگرچہ تعلیم و تہذیب کاسفرکائنات کے اسرارورموزکی تلاش میں زمین کے مدارسے باہربھی نکل گیا۔
خاتم النبیینﷺنے سیاست کو’’ خلافت ‘‘کادرس دیا کہ اقتدارایک امانت ہے جواﷲ تعالی کی طرف سے انسان کو ملی ہے،خاتم النبیینﷺنے اپنی تعلیمات میں واضع کیا کہ اقتدار کوئی موروثی حق نہیں ہے،زورآوری اور طاقت و قوت کے بل بوتے پر حاصل ہونے والی چیز نہیں جسے ذاتی ملکیت سمجھ لیا جائے بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جس کے بارے میں سختی سے جوابدہی کی جائے گی۔صدیاں گزر گئیں پولٹ بیورو،پارلیمانی نظام،صدارتی نظام،بنیادی جمہوریت اور نہ جانے کتنے ہی اورسیاسی نظام اس دنیا میں آئے ،کتنے ہی سیاسی مفکرین نے اپنے اپنے سیاسی افکار پیش کیے ’’علم سیاسیات‘‘کے نام سے ایک علم و فن کی ایک شاخ بھی وجود میں آ گئی اور جمہوریت نامی سیاسی نظام سمیت کئی سیاسی نظاموں کو انسانیت نے آزما کر بھی دیکھ لیالیکن گھوم پھر کر چکر لگا کر اسی نقطے کے گرد ہی سب نظام گھومتے رہے کہ ’’اقتدار‘‘امانت ہے۔کسی نے اسے عوام کی امانت کہاتو کسی نے اسے تاریخ کی امانت کہا تو کسی نے اسے آنے والی نسلوں کی امانت کہا،خاتم النبیینﷺکے عطا کردہ درس سے آگے بڑھ کر کسی نے کوئی درس پیش نہ کیا۔خاتم النبیین ﷺنے میدان سیاست کی تمام اخلاقیات کوان کی معراج تک پہنچادیااور آپ کے مقدس وارثین نے ان سیاسی اخلاقیات کواس زمین کے سینے پر جاری وساری و نافذالعمل کر کے ان سیاسی اخلاقی معیارات کو ہمیشہ کے لیے امرکردیا۔اس کے بعد آج تک یہ آسمان ان سیاسی اخلاقی معیارات میںکوئی اضافہ نہ دیکھ سکا۔
خاتم النبیینﷺنے عدالتوں کو عدل و انصاف کا درس دیا،صدیاں گزرجانے کے باوجود اور تہذیب و تمدن میں اتنی ترقی ہو چکنے کے باوجود کہ راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہو گئی ہیں اس درس میں کوئی اضافہ آج تک نہ ہوسکا۔خاتم النبیینﷺنے میدان جنگ کوجن اصولوں کاپابند بنایا ان میں آج تک کوئی اضافہ ممکن نہ ہوسکا،خاتم النبیینﷺنے بین الاقوامی قوانین میں برداشت و رواداری کی جو ریت ڈالی اس میں یہ آسمان آج تک کوئی بڑھوتری نہ دیکھ سکا،خاتم النبیینﷺنے خانگی زندگی میں پیارومحبت کا درس دیا اورنوجوانوںکو نکاح کا درس دیا ان سے زیادہ پاکیزہ درس آج تک کہیں سے ابھر نہ سکااورایک فرد کو تقوی کادرس دیا بھلا اس سے بہتر درس کب ممکن ہے۔یہ سب تشریح ہے کہ آپ ﷺ خاتم النبیین تھے اور جو معیارات آپﷺ قائم کر گئے چونکہ ان میں اضافہ ممکن نہیں اس لیے کسی نئے نبی کی آمدبھی ممکن نہیں۔
ہماری عقل کہتی ہے کہ جس کسی نے ان معیارات اخلاق میں اضافہ کیا ہم اسے خاتم النبیین مانیں گے اور ہمارا ایمان کہتا ہے کہ اب تاقیامت ان معیارات میں اضافہ ممکن نہیں ایمان چونکہ عقل سے بڑا ہے اس لیے ہم ایمان کو عقل پر ترجیح دیں گے ۔سب انسان سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور چاہیں کہ ان تعلیمات میں کوئی اضافہ کر سکیں یا ن میں کوئی سقم ڈھونڈ کر اس کو ختم کر سکیں یا کوئی کمی تلاش کر کے اسکو پورا کرسکیں یا کسی طرح کی کوتاہی کاازالہ کر سکیں تو اسکا قطعاََ کوئی امکان نہیں ہے۔یہ حکم ربی ہے اور خدائی فیصلہ ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا،کسی اورکاکلمہ نہیں پڑھا جائے گااور کوئی اور ’’مطاع‘‘اب تاقیامت پیدا نہیں ہوگا جس کسی نے اس طرح کے دعوے کیے بالاجماع امت وہ کذاب ہوگااور امت سے خارج سمجھا جائے گا۔تاریخ نے ایسے لوگ دیکھے اور ممکن ہے مزید بھی نظر آنے لگیں لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کا کوئی دینی و اخلاقی مقام ہوگا ۔جو کوئی خاتم النبیینﷺ کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں ڈالے گا وہی دنیاوآخرت میں مسلمان گردانا جائے گا۔
تاریخ اسلام میں سینکڑوں لوگوں نے نبوت کے دعوے کیے ان میں خواتین بھی شامل رہیں لیکن کل امت نے اجماعی طورپر ان کاانکارکیا۔کہیں بھی کسی عالم دین یاکسی حق پرست گروہ نے ایسے مدعیان نبوت کے بارے میں کسی طرح کے نرم گوشے کاقطعاََاظہارنہیں کیا۔کل امت کی کل تاریخ میں تاشرق و غرب اور صحابہ کرام کے مقدس گروہ کے دورسے آج دن تک ختم نبوت پر کسی طرح کا سمجھوتہ دیکھنے کو نہیں ملا۔آپﷺ کے فوراََبعد تو کذابین کی وباپھوٹ پڑی تھی لیکن اصحاب رسولﷺکے پہاڑوں جیسے ایمان نے انہیں برداشت نہ کیااور اکثرکے ساتھ تو قتال تک کی نوبت آئی لیکن اجماع صحابہ نے اس قتال سے بھی گریزنہیں کیا۔ان مدعیان نبوت کے حالات پڑھنے سے صاف محسوس ہوتاہے کہ حرص و لالچ کی کثرت کے باعث شیطان نے انہیں اس راستے پرڈال دیا۔امت مسلمہ کے مختلف الخیال گروہ ایک دوسرے کے خلاف بہت دورتک نکل جاتے ہیں اور بعض اوقات دوسرے کوخارج از ایمان سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر گروہ میں ایک معتدل طبقہ کل امت مسلمہ کے تمام گروہوں کو مسلمان ہی سمجھتاہے جب کہ کسی نئے نبی کو ماننے والو ںکو کل امت کے کل گروہوں کے کل علماء بالاجماع دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور کسی کے ہاں اس طرح کے طبقوں کے لیے 1%بھی برداشت نہیں پائی جاتی۔ ماضی قریب میں دورغلامی کے دوران کل میدان ہائے حیات میں تبلیس کے باوجود جب امت کے عقائد کوگمراہ نہ کیاجاسکاتو گورے سامراج نے عقیدہ ختم نبوت میں نقب لگانے کی ناپاک سعی کی۔امت نے ہمیشہ کی طرح آج بھی اس ناپاک سعی کے خلاف آہنی بندباندھااوراسے کفرکے کے اندھیرے غارمیں دھکیل دیااور آئندہ بھی اس طرح کی کوئی کاوش ناقابابل برداشت ہوگی تاآنکہ قیامت کاسورج طلوع ہوجائے۔