خطا گیا جو نشانہ کماں بدلتا ہے
خطا گیا جو نشانہ کماں بدلتا ہے
نہیں تمیز رہائش مکاں بدلتا ہے
کہانی یہ تھی کہ سب ساتھ مل کے رہتے ہیں
پھر اس کے بعد اچانک سماں بدلتا ہے
ہم اس کی راہ میں آنکھیں بچھا کے دیکھ چکے
مگر وہ جان کا دشمن کہاں بدلتا ہے
امیر شہر تنوع پسند ہے خالدؔ
لباس نو کے مطابق زباں بدلتا ہے