خرگوشوں کی غزل

کوئی شکاری بار بار بن میں ہمارے آئے کیوں؟
چونکیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ڈرائے کیوں؟
گھر نہیں، جھونپڑی نہیں کٹیا نہیں مکاں نہیں؟
بیٹھے ہیں جنگلوں میں ہم کوئی ہمیں بھگائے کیوں؟
کان کھڑے نہ کیوں کریں گھاس میں کیوں نہ ہم چھپیں
کھٹکا ذرا بھی ہو اگر کوئی ٹھٹک نہ جائے کیوں؟
بن میں ہمارے جو بھی آئے سیر مزے سے وہ کرے
آئے ہزار بار خود کتوں کو ساتھ لائے کیوں؟
امی سے مار کھا کے بھی خوش کوئی کس طرح رہے
پانی مزے سے کیوں پئے گھاس مزے سے کھائے کیوں؟
کہتا تھا اک شکاری یہ ''آئیں گے ہم ضرور یاں
جس کو ہے اپنی جاں عزیز بن میں وہ گھر بنائے کیوں؟''
چڑیاں نہ چہچہائیں کل سوئیں گے ہم دوپہر تک
بند ہے بن کا مدرسہ کوئی ہمیں جگائے کیوں؟