خراب درد ہوئے غم پرستیوں میں رہے
خراب درد ہوئے غم پرستیوں میں رہے
خوشی کی کھوج بہانہ تھی مستیوں میں رہے
ہوا حصول زر فن بڑی کشاکش سے
ہم ایک عمر عجب تنگ دستیوں میں رہے
ہر اک سے جھک کے ملے یوں کہ سرفراز ہوئے
چٹان جیسے خمیدہ سی پستیوں میں رہے
چبھن کی ناؤ میں پر کی خلیج رشتوں کی
عجب مذاق سے ہم گھر گرہستیوں میں رہے
کتابیں چہرے مناظر تمام بادہ کدے
بتائیں کیا کہ بڑی مئے پرستیوں میں رہے
مسافتیں تھیں شب فکر کن زمانوں کی
کہاں کہاں گئے ہم کیسی ہستیوں میں رہے
خلوص فکر کی گلیوں میں گھومتے تنہا
ہم اپنے شعر کی آباد بستیوں میں رہے