خنجر نے ہی چھوڑا تھا نہ مرنے میں گماں اور

خنجر نے ہی چھوڑا تھا نہ مرنے میں گماں اور
کیوں لائے مرے قتل کو وہ تیر و کماں اور


کم ظرف کبھی جوش محبت میں لبوں پر
کرتے ہیں حماقت تو ابھرتا ہے نشاں اور


بے خوف و خطر آ کے جہاں سوتے ہوں ڈنگر
کیا میرے مکاں سا ہے کوئی خستہ مکاں اور


ڈاکٹر نے کہا منہ میں مرے آلا لگا کر
آں آں سے میاں کیجئے باہر کو زباں اور


ہم بھی تو ذرا دیکھیں بہت کہتے ہیں غالبؔ
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور


ہیں اور بھی دنیا میں ہزل گو بہت اچھے
کہتے ہیں کہ ہے رازؔ کا انداز بیاں اور