خلش تیر بے پناہ گئی
خلش تیر بے پناہ گئی
لیجئے ان سے رسم و راہ گئی
آپ ہی مرکز نگاہ رہے
جانے کو چار سو نگاہ گئی
سامنے بے نقاب بیٹھے ہیں
وقعت حسن مہر و ماہ گئی
اس نے نظریں اٹھا کے دیکھ لیا
عشق کی جرات نگاہ گئی
انتہائے جنوں مبارک باد
پرسش حال گاہ گاہ گئی
مر مٹے جلدباز پروانے
اپنی سی شمع تو نباہ گئی
دل میں عزم حرم سہی لیکن
ان کے کوچہ کو گر یہ راہ گئی