خلل آیا نہ حقیقت میں نہ افسانہ بنا

خلل آیا نہ حقیقت میں نہ افسانہ بنا
میں تو لگتا ہے کہ بیکار ہی دیوانہ بنا


مار ہی ڈالا تھا ساحل کے مرض نے مجھ کو
ایک سیلاب اچانک ہی شفا خانہ بنا


جیسے پرچھائیں بنائی گئی ہر جسم کے ساتھ
اسی انداز سے ہر شہر کا ویرانہ بنا


مسجد جسم جسے کوئی نمازی نہ ملا
وہیں اک شام مری روح کا مے خانہ بنا


فرحتؔ احساس سے آتی تھی صدائے گریہ
آخر کار وہ دنیا کا عزا خانہ بنا