خلا میں بندر

ایک ''بونو'' نام کا بندر گیا سوئے خلا
آدمی کا کام ہے بندر کا پھنستا ہے گلا
یہ توقع بندروں سے کر بھلا ہوگا بھلا
ہے یہی بندر کے سر گویا طویلے کی بلا
ڈارونؔ نے سچ کہا تھا اس کا یہ احسان ہے
آدمی کا پیش رو یہ بے زباں حیوان ہے


گردش دوراں میں آیا ہے یہ کیسا انقلاب
دیکھتے ہیں اب خلا میں بیٹھ کر بندر بھی خواب
خواب کیا ہوگا یہی ہوگا کہ ہم ہیں لا جواب
اس بنا پہ آدمی کا بھی لگائیں گے حساب
کیا خلا میں اس پہ گزری ہوگی اے ساقی نہ پوچھ
''کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ''


یہ تو سائنٹسٹ ہی جانیں انہی کو ہے خبر
اس خلا کے خواب میں بندر کو کیا آیا نظر
اس کو کیا معلوم اس کا ہے خلا میں کیوں سفر
یہ سمجھتا ہوگا میں بیٹھا ہوں اونچی ڈال پر
سوچتا ہوگا کہ ہر خورد و کلاں چکر میں ہے
یہ زمیں چکر میں ہے یہ آسماں چکر میں ہے


خواہ چھوٹی ذات کا بندر ہے یا ڈھبوس ہے
جس نے بھیجا ہے خلا میں اس کو وہ تو روس ہے
وہ زمیں والوں کا اک بھیجا ہوا جاسوس ہے
ڈگڈگی کی شکل کی اشیا سے وہ مانوس ہے
چونکہ آدھی ڈگڈگی کی شکل میں ہے کیپسیول
ناچتے ہیں ڈگڈگی کے بل پہ بندر یا اصول


دور سے شاید زمیں کو ڈگڈگی سمجھا ہے وہ
ناچتے رہنے کو شاید زندگی سمجھا ہے وہ
تیرتے رہنا خلا میں دل لگی سمجھا ہے وہ
آدمی خود کو ز فرط سادگی سمجھا ہے وہ
بات ''بونو'' کی خلا میں دیکھیے کیسے بنے
کیا ستارے شب میں آتے ہیں نظر اس کو چنے