خبر سنے گا مری موت کی تو خوش ہوگا
خبر سنے گا مری موت کی تو خوش ہوگا
کہ اب تو جا کے دوانے کو چین آئے گا
ملیں گے مجھ سے کہیں اچھے جاں نثار تجھے
مگر کبھی تو مرا ذکر آ ہی جائے گا
نہ ایسا ہو مگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا
سکوں تلاش کرے گا کہیں نہ پائے گا
عجیب دور ہے کچھ بھی یہاں پہ ممکن ہے
جو یاد رکھنا بھی چاہا تو بھول جائے گا
زمانہ گزرے گا ٹوٹیں گے سیکڑوں رشتے
پھر ایک شخص فسانہ مرا سنائے گا
کوئی ہنسے گا دوانے کی زندگی پہ مگر
کسی کی آنکھ میں اک اشک آ ہی جائے گا
نہ دوستوں کی شکایت نہ دشمنوں کا گلا
یہ سوچتا ہوں کسے کون اب منائے گا